دہلی فسادات: پولس کی کھل گئی قلعی، ایک ہی مبینہ جرم کے لیے ایک سے زائد ایف آئی آر!

دہلی فسادات سے جڑے سبھی ضمانتی احکامات کا مطالعہ کرنے کے بعد اخذ کیا گیا کہ ملزمین کے خلاف ایک ہی مبینہ جرم کے لیے ایک سے زائد ایف آئی آر درج کی گئی تھی تاکہ ان کے لیے ضمانت پانا مشکل ہو جائے۔

دہلی فساد کے بعد کی فائل تصویر
دہلی فساد کے بعد کی فائل تصویر
user

قومی آواز بیورو

فروری 2020 میں ہوئے دہلی فسادات کی دہلی پولس جس طرح سے جانچ کر رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے غیر جانبدارانہ جانچ کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر دہلی پولس کے ذریعہ کی جا رہی گرفتاریوں اور ملزمین کی ضمانت کے معاملوں میں عدالتی احکامات پر غور کریں تو اس میں ایک یکساں پیٹرن دیکھنے کو ملتا ہے۔ ضمانتی عرضیوں پر سماعت کےد وران زیادہ تر معاملوں میں عدالت نے پایا کہ پولس کی کہانی میں گڑبڑی ہے، اس کے پاس الزامات پر بھروسہ کرنے لائق قابل اعتماد ثبوتوں کا فقدان ہے۔

ہفتہ وار ہندی اخبار ’سنڈے نوجیون‘ نے دہلی فسادات سے جڑے تمام ضمانتی احکامات کا مطالعہ کرنے کے بعد اخذ کیا کہ ملزمین کے خلاف ایک ہی مبینہ جرم کے لیے ایک سے زائد ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس سے ان کے لیے ضمانت پانا مشکل ہو جائے۔ بغیر ٹھوس ثبوت ایف آئی آر تیار کر دیے گئے اور کئی بار تو جھوٹے اور یہاں تک کہ ہوا ہوائی ثبوتوں کو اس کی بنیاد بنایا گیا۔ لیکن ان سب میں یکساں پیٹرن دکھائی دیتا ہے۔


فیضل (بدلا ہوا نام) کے معاملے کو ہی لیں۔ رکشہ کھینچ کر پیٹ پالنے والے اس شخص کا نام کئی ایف آئی آر میں ہے۔ اسے پہلی بار 11 مارچ 2020 کو گرفتار کیا گیا۔ اپریل 2020 میں جب وہ پہلے سے ہی حراست میں تھا، اسے مزید ایک معاملےمیں پھر سے گرفتار کیا گیا۔ اس کی پہلی ضمانت عرضی ستمبر 2020 میں بھی فریق استغاثہ کی اس دلیل کے بعد خارج کر دی گئی کہ وہ اس دوران اسی علاقے میں تھا اور فریق استغاثہ کے گواہوں انل کمار اور ہمانشو نے اس کی شناخت بھی کی ہے۔ لیکن جب دہلی پولس نے آخری چارج شیٹ داخل کی تھی اس میں ان ثبوتوں کو ’مدلل طور پر غلط‘ بتایا گیا۔ نتیجتاً فیضل نے اس سال کے شروع میں پھر سے ضمانت کے لیے عرضی داخل کی۔ سماعت کے دوران فریق استغاثہ نے مانا کہ اس سے ’انجانے میں غلطی‘ ہو گئی۔ فیضل کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ’’26 ستمبر 2020 کو عدالتی حکم کے پیراگراف 6,9 اور 10 میں درج فریق استغاثہ کی جانب سے پیش دلائل کو غلط پایا گیا ہے۔ انہی کی بنیاد پر ضمانت کی عرضی خارج کر دی گئی تھی۔ ملزم میرٹ کی بنیاد پر ضمانت پانے کا حقدار ہے کیونکہ جانچ ایجنسی کے ذریعہ جمع کیے گئے کسی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم دکھائی نہیں دے رہا ہے، اس کا فون لوکیشن اس وقت اس علاقے میں نہیں تھا اور نہ ہی اس کی انل کمار نے شناخت کی۔‘‘ جب کہ پہلے پولس کہہ رہی تھی کہ انل کمار نے فیضل کی شناخت کی ہے۔

لیکن فیضل کو دوسرے معاملے میں بھی ضمانت لینی پڑی جس کے تحت اسے اپریل 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دہلی فسادات کے کئی معاملوں سے جڑی وکیل تمنا کہتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک ہی فیملی کے چار اراکین نے تھانے میں الگ الگ جا کر ایک ہی الزام میں الگ الگ ایف آئی آر درج کرا دی۔ دوسرے معاملے میں فیضل کو 22 فروری 2021 کو ضمانت ملی۔ سماعت کے دوران بطور دلیل غلط ثبوتوں کی تو بات اٹھی ہی، روپ سنگھ کی گواہی پر بھی سوال اٹھے جو دونوں ہی معاملوں میں گواہ تھے۔ ضمانت کے لیے فیضل کو 20 اور 15 ہزار کے دو نجی مچلکے بھرنے ہیں۔ رکشہ چلا کر پیٹ پالنے والے فیضل کے لیے 35 ہزار کوئی چھوٹی رقم تو ہے نہیں۔


’نیوز لانڈری‘ کی رپورٹ کے مطابق 35 سال کے عارف کو تین معاملوں میں ضمانت لینی پڑی اور اسے اب ہر معاملے میں 20-20 ہزار کا نجی مچلکہ بھرنا ہے۔ اتنی رقم کا انتظام نہ کر پانے کے سبب وہ ابھی جیل ہی میں ہے۔ پھل بیچنے والے ناصر احمد کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ ناصر نے دعویٰ کیا تھا کہ 100 سے زائد لوگوں کے جھُنڈ نے اس کی دکان سے دو لاکھ سے زیادہ کے پھل لوٹ لیے تھے۔ اس معاملے میں تین ملزمین اسامہ، گلفام (عرف سونو چکنا) اور عاطف کو ضمانت دے دی گئی کیونکہ فریق استغاثہ ان کے خلاف کوئی قابل اعتبار ثبوت نہیں دے پایا اور جن لوگوں کے نام گواہ کے طور پر درج کیے گئے تھے، ان میں سے کسی کا بھی دفعہ 161 کے تحت بیان درج نہیں کیا گیا تھا۔ فرد جرم 22 مئی 2020 کو داخل کیا گیا تھا۔

پریم سنگھ کے قتل معاملے میں کڑکڑڈوما کورٹ نے اس بنیاد پر دو ملزمین کو ضمانت دے دی کہ ان کے گھر فساد والے علاقے میں ہی تھے، ان کے موبائل کا لوکیشن اسی علاقے کا آنا فطری ہے۔ ایف آئی آر درج کرنے کے ساتھ مہینے بعد ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری اس بنیاد پر ہوئی تھی کہ فریق استغاثہ کے کچھ گواہوں نے انھیں پہچاننے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن طویل مدت تک کوئی شناخت پریڈ نہیں کرائی گئی اور شناخت کی رسم ملزم کی بلیک اینڈ وہائٹ تصویر اور کچھ فارم کو بھرنے میں دی گئی تصویروں کی بنیاد پر پوری کی گئی۔


کئی ایسے معاملے ہیں جن میں ملزم کی شناخت ان تصویروں اور ویڈیو سے کی گئی جن میں سینکڑوں لوگ ہیں اور ملزمین کا چہرہ بھی صاف صاف نہیں نظر آ رہا اور کئی میں تو صرف پیٹھ دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بے شک چند معاملے ہی ہیں، لیکن یہ بتانے و دکھانے کے لیے کافی ہیں کہ دہلی پولس کس طرح فسادات کی جانچ کر رہی ہے اور کس طرح بغیر کسی ثبوت کے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

فسادات کے سلسلے میں کل 755 ایف آئی آر درج کی گئی اور دعویٰ ہے کہ ان میں سے 400 معاملوں کو حل کر لیا گیا اور 349 معاملوں میں فرد جرم داخل کیے گئے۔ ظاہر ہے، ابھی تقریباً 350 ایسی ایف آئی آر ہیں جن کے سلسلے میں کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ ان میں سے کم از کم 10 ایسی ہیں جن میں ملزم کے طور پر بی جے پی رکن پارلیمنٹ، رکن اسمبلی اور بڑے لیڈروں کے نام ہیں۔


اس سے جڑی ایک اور بات ہے۔ کم از کم پانچ ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جن میں عدالت پر دباؤ بنانے کے لیے فرد جرم کی چنندہ باتیں قصداً میڈیا کو افشا کی گئیں۔ ایسی افشا خبروں کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کی عرضی پر دہلی ہائی کورٹ نے کچھ میڈیا اور دہلی پولس، دونوں سے جواب طلب کیا کہ آخر کچھ ’اقبالیہ بیان‘ میڈیا میں کس طرح افشا ہو گئے۔ اس معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کی جج جسٹس مکتا گپتا نے کہا کہ دہلی پولس نے جو ویجلنس جانچ کی رپورٹ پیش کی ہے، وہ ’آدھی-ادھوری‘، ’ردّی‘ اور اس سے بھی خراب ہے ’جو وہ کسی عام سے چوری کے معاملے میں کرتے ہیں۔‘

’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق جج نے کہا کہ ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس ویجلنس رپورٹ پر تبصرہ کروں؟ میں اسے ردّی کا ٹکڑا کہوں گی... بلکہ یہ تو خلاف ورزی کا معاملہ بنتا ہے کہ اس عدالت نے آپ سے اچھی طرح جانچ کرنے کو کہا تھا اور وہ بھی آپ کے بیان پر جس میں آپ نے اسے قومی اہمیت کا سبجیکٹ بتایا تھا اور آپ خود اس بات سے پریشان تھے کہ آخر جانچ کی رپورٹ افشا ہو جا رہی ہے... اور اس ویجلنس جانچ کو دیکھیے۔‘‘


دہلی پولس نے دعویٰ کیا تھا کہ تقریباً 50 فیصد ایف آئی آر مسلمانوں کے خلاف ہے اور باقی ہندوؤں کے اور یہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہےکہ پولس غیر جانبداری کے ساتھ جانچ کر رہی ہے۔ لیکن فساد میں مسلم طبقہ کو جان مال کا زیادہ نقصان ہوا اور اس وجہ سے کسی طرح کی ’توازن‘ بنانے کی کوشش اپنے آپ میں نامناسب معلوم ہوتی ہے۔

دہلی فسادات میں کل 53 لوگوں کی جانیں گئیں۔ فسادات کےمعاملوں سے جڑے وکلاء اور سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ دہلی پولس کی پوری کہانی اس بات کے ارد گرد تیار کی گئی ہے کہ 100 دن سے چل رہے سی اے اے مخالف مظاہرے کی آڑ میں دہلی فسادات کی سازش تیار کی گئی اور یہ بات کسی ناول کی کہانی جیسی ہے۔ لوگوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ دہلی فسادات کی نئے سرے سے جانچ ہونی چاہیے۔

(سنیوکتا بسو کی تحریر)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔