کسان تحریک: چلچلاتی دھوپ اور لو سے حفاظت کے لیے مظاہرین کسانوں نے بنایا بانس کا گھر
دہلی کی سرحدوں پر کسانوں نے پکے گھر تو بنانے شروع کر ہی دیے ہیں لیکن گرمی سے حفاظت کے لیے اینٹ اور گارے کے گھروں کے علاوہ بانس کے گھر بھی بنایے جا رہے ہیں
نئی دہلی: دہلی کی سرحدوں پر کسانوں نے پکے گھر تو تعمیر کرنے شروع کر ہی دیے ہیں، لیکن گرمی سے حفاظت کے لیے اینٹ اور گارے کے گھروں کے علاوہ بانس کے گھر بھی بنایے جا رہے ہیں۔ سنگھو بارڈر پر جند سے ّیے کسانوں اور کاریگروں نے ایک بانس کا گھر تعمیر کیا ہے، جو 25 فٹ لمبا، 12 فٹ چوڑا اور 15 فٹ اونچا ہے۔ اس میں 15-16 لوگ آرام سے رہ سکتے ہیں۔
سو دنوں سے بھی زیادہ وقت سے دھرنے پر بیٹھے کسان یہ مان چکے ہیں کہ انہیں گرمیاں بھی دہلی میں ہی گزارنی ہیں، ایسے میں چلچلاتی دھوپ اور لو کے تھپڑوں سے دفاع کا پورا انتظام کر لیا گیا ہے۔
اس بانس کے گھر کو کسانوں نے گرمی سے حفاظت کے ارادے سے تیار کیا ہے، تاکہ گرم ہوا کے زور کو کم کیا جا سکتے۔ گھر کی چھت کو خاص پرالی سے تیار کیا گیا ہے۔ گاؤن کے طریقوں کے ساتھ یہاں جدیدیت کا بھی پورا خیال رکھا گیا ہے۔ بانس کے اس گھر میں بجلی کنکشن ہے، چھتوں پر پنکھے لگے ہیں اور کولروں کا بھی انتظام کیا گیا ہے، تاکہ گرمی کی وجہ سے تحریک کی شدت کم نہ ہونے پایے۔ جند سے آیے کسانوں نے اس گھر کو صرف پانچ دن میں تیار کیا ہے۔
جیسے جیسے موسم اپنے تیور بدل رہا ہے، ویسے ویسے کسان بھی اپنی حکمتی عملی تبدیل کر رہے ہیں۔ ٹیکری بارڈر پر بلند شہر کے کسان پکے مکان تعمیر کر رہے ہیں، جن کی قیمت 20 سے 30 ہزار مانی جا رہی ہے اور اب بانس کے مکان بھی تیار ہونے شروع ہو گیے ہیں۔ دراصل کسانوں کے ٹریکٹر اب کٹائی کے لیے گاؤں کی جانب گامزن ہوں گے۔ اب تک جو کسان ٹرالیوں میں رہ کر کسان تحریک میں شریک تھے وہ اب نیے انتظامات کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔