ہندوستان سمیت 16 ممالک میں مہلک جراثیم ’ایچ وی کے پی‘ کا حملہ، ڈبلو ایچ او نے کیا الرٹ، روک تھام کو بتایا ناکافی
ڈبلو ایچ او کے مطابق ایچ وی کے پی کو لے کر ہندوستان کا کہنا ہے کہ 2015 سے اس وائرس کو آئسولیٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی۔
ہائپر ورولینٹ کلیبسیلا نمونیا (ایچ وی کے پی) نام کے ایک نئے جراثیم کو لے کر عالمی ادارہ صحت (ڈبلو ایچ او) نے ہندوستان سمیت 16 ممالک کو الرٹ جاری کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا جراثیم ہے جو صحت مند لوگوں میں مہلک انفکشن پیدا کر سکتا ہے۔ اسپتال میں داخل مریض یا پھر آبادی دونوں جگہوں پر اس انفکشن کا پھیلاؤ بڑے پیمانے پر ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے اس خطرناک جراثیم کی 127 میں سے 43 ممالک سے اطلاعات جمع کرنے کے بعد دی ہے۔ ان 43 ممالک میں سے 16 ملکوں میں ایچ وی کے پی جراثیم کے معاملے سامنے آنے کی تصدیق کی گئی ہے جس میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ ڈبلو ایچ او کے مطابق اب تک الجیریا، ارجنٹائنا، آسٹریلیا، کینیڈا، کمبوڈیا، ہانگ کانگ، ہندوستان، ایران، جاپان، عمان، پاپوا نیوگنی، فلیپنس، سوئٹزرلینڈ، تھائی لینڈ، یونائٹڈ کنگڈم آف گریٹ برٹین اور شمالی آئرلینڈ کے علاوہ امریکہ میں اس کے معاملے سامنے آئے ہیں۔
12 ممالک میں اس جراثیم کا نیا اسٹرین ایس ٹی 23-کے1 بھی سامنے آیا ہے جس میں ہندوستان شامل ہے۔ ڈبلو ایچ او کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی بھی ملک کی توجہ ایچ وی کے پی وائرس پر نہیں گئی ہے۔ زیادہ تر ڈاکٹر اس کے ڈائگناسٹک ٹسٹ اور علاج سے بھی واقف نہیں ہیں جبکہ ڈاکٹروں اور مریضوں کی جانچ کرنے والے تجربہ گاہوں کو اس سلسلے میں مستعد رہنا چاہیے۔ ڈبلو ایچ او نے صلاح دی ہے کہ اپنی تجربہ گاہ کی صلاحیت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس وائرس سے متاثر علاقوں کا ایک اعداد و شمار بھی جمع کیا جائے۔
ڈبلو ایچ او نے کا کہنا ہے کہ ایچ وی کے پی کو لے کر ہندوستان نے بتایا کہ 2015 سے اس وائرس کو آئسولیٹ یعنی الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں پہلی بار کاربوپنیم-مزاحمتی ایچ وی کے پی جراثیم کی پہچان 2016 میں ایک مریض میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے ہی جراثیم کش مزاحمت کے سلسلے میں کوششیں تیز کر دی گئیں تھیں۔ ہندوستان وزارت صحت کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ نئے اسٹرین کی پہچان کے لیے آئی سی ایم آر کی ایک پوری ٹیم کام کر رہی ہے۔
ڈبلو ایچ او نے بتایا کہ اسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں میں کلیبسیلا نمونیا نامی انفکشن ہونا عام سی بات ہے۔ اس کی دو شکل ہے جس میں پہلا ایچ وی کے پی اور دوسرا کلاسک کے. نمونیا (سی کے پی) ہے۔ یہاں سب سے بڑا چیلنج ہے کہ موجودہ وقت میں ہمارے پاس تجربہ گاہ ان کے درمیان فرق کرنے میں نااہل ہیں۔ جب کو مریض کاربیپنیم مزاحمت کی وجہ سے ایچ وی کے پی سے متاثر ہوا ہے اور اس میں ہائپر ورولینڈ اسٹرین بھی ہے تو مریض کی جان کا جوکھم کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔