نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ بنائے گئے

بنگلہ دیش میں گزشتہ کئی دنوں سے احتجاج کرنے والے طلباء نے محمد یونس کی عبوری حکومت کی سربراہی کی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>نوبل انعام یافتہ محمد یونس</p></div>

نوبل انعام یافتہ محمد یونس

user

قومی آوازبیورو

بنگلہ دیش میں گزشتہ کئی دنوں سے جاری سیاسی ہلچل کے بعد عبوری حکومت قائم ہونے والی ہے۔ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کی قیادت کے لیے چنا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ملک کے صدر محمد شہاب الدین کی زیر صدارت بنگا بھون (ایوان صدر) میں ایک میٹنگ کے دوران لیا گیا۔

احتجاجی طلبہ نے محمد یونس کی عبوری حکومت کی سربراہی کی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔ ریزرویشن تحریک کی قیادت کرنے والے طلبہ رہنماؤں کے ساتھ تینوں فوجوں کے سربراہان نے بھی  اس میٹنگ میں شرکت کی۔


غربت کے خلاف جنگ میں کام کرنے پر 'غریبوں کا بینکر' کہلائے جانے والے محمد یونس عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے طور پر احتجاج کرنے والے طلباء کی پہلی پسند تھے۔ محمد یونس بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے سخت مخالف ہیں۔ شیخ حسینہ کے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے کے پیچھے ان کو  بھی ایک اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔

'غریبوں کے بینکر' کے نام سے مشہور یونس اور ان کے قائم کردہ گرامین بینک کو 2006 میں امن کا نوبل انعام ملا۔ کیونکہ، انہوں  نے دیہی غریبوں کو سو  امرکی ڈالر  سے کم کے چھوٹے قرضے فراہم کرکے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد کی۔ ان غریبوں کو بڑے بینکوں سے کوئی مدد نہیں مل سکی۔


اس کے قرض دینے والے ماڈل نے دنیا بھر میں ایسی بہت سی اسکیموں کو متاثر کیا۔ اس میں امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ امریکہ میں، یونس نے ایک علیحدہ غیر منافع بخش تنظیم گرامین امریکہ بھی شروع کی۔ لیکن جب ان کی خواہش نے بڑی شکل اختیار کرنا شروع کی تو شیخ حسینہ ان سے ناراض ہو گئیں۔ حسینہ نے یونس پر 'غریبوں کا خون چوسنے' کا الزام بھی لگایا۔

اس سال جنوری میں یونس کو لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جون میں، بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے یونس اور دیگر 13 کے خلاف اپنی قائم کردہ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے ورکرز کے فلاحی فنڈ سے 252.2 ملین ٹکا (2 ملین ڈالر) کے غبن کے الزام میں بھی مقدمہ چلایا۔


تاہم انہیں کسی بھی معاملے میں جیل نہیں بھیجا گیا۔ یونس کے خلاف بدعنوانی اور دیگر کئی الزامات میں 100 سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ تاہم یونس نے ایسے کسی بھی الزامات کی تردید کی۔ اس سال جون میں حسینہ پر تنقید کرتے ہوئے یونس نے کہا تھا، 'بنگلہ دیش میں کوئی سیاست نہیں رہ گئی ہے۔ صرف ایک جماعت ہے جو متحرک ہے اور ہر چیز پر قابض ہے۔ اور وہ اپنے طریقے سے الیکشن جیتتی ہے۔‘

جب 1974 میں بنگلہ دیش میں قحط پڑا تو یونس چٹاگانگ یونیورسٹی میں معاشیات پڑھا رہے تھے۔ اس قحط میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ پھر یونس نے ملک کی بڑی دیہی آبادی کی مدد کے لیے ایک بہتر طریقہ تلاش کرنے کا سوچا۔ یہ موقع اس وقت آیا جب یونس کی ملاقات یونیورسٹی کے قریب ایک گاؤں کی ایک خاتون سے ہوئی جس نے ایک ساہوکار سے قرض لیا تھا۔ یہ قرض ایک ڈالر سے بھی کم تھا، لیکن اس کے بدلے میں ساہوکار کو یہ حق مل گیا کہ وہ عورت کی تیار کردہ کوئی بھی چیز اس کی مقرر کردہ قیمت پر خرید سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔