شیخ حسینہ کی میزبانی ہندوستان کو بھاری نہ پڑ جائے... سہیل انجم

شیخ حسینہ جب ہندوستان آئیں تو ان کا طیارہ غازی آباد کے ہنڈن ایئر بیس پر اترا جہاں زبردست سیکورٹی میں انھیں محفوظ مقام پر رکھا گیا۔ بعد میں یہ خبر آئی کہ انھوں نے شاپنگ سینٹر میں ضروری خریداری کی ہے

<div class="paragraphs"><p>شیخ حسینہ کی فائل تصویر / Getty Images</p></div>

شیخ حسینہ کی فائل تصویر / Getty Images

user

سہیل انجم

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان میں شیخ حسینہ کی میزبانی اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مبینہ حملوں پر ہندوستان کی خاموشی ایک ایسی صورت حال کی جانب اشارہ ہے جو کسی بھی طرح ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک طرف بنگلہ دیش کی اپوزیشن پارٹی بی این پی نے ہندوستان سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے تو دوسری طرف یہاں کی حکومت پر یہ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں، ان کی املاک اور ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کو بند کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بنگلہ دیش کے ہندوؤں کے تحفظ کے سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن ہندوستان کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم تادم تحریر نہیں اٹھایا گیا ہے۔

آئیے سب سے پہلے ہندوستان میں بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے قیام سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ بی این پی نے ہندوستان سے حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ وہاں ان پر ایک سو سے زائد مقدمات قائم کیے گئے ہیں اور عبوری حکومت میں شامل ناہید اسلام اور دوسروں کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کو ملک واپس آ کر قانون کا سامنا کرنا چاہیے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے پندرہ سالہ دور حکومت میں اپوزیشن پر مظالم ڈھائے، مخالفین کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی، انتخابات میں دھاندلی سے کامیابی حاصل کی اور دیگر متعدد الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ ایک ذمہ دار سیاست داں کی حیثیت سے شیخ حسینہ کو چاہیے کہ وہ از خود اپنے ملک واپس لوٹ جائیں اور قانون کا سامنا کریں، اپنا دفاع کریں اور اپنے اوپر عائد کیے جانے والے الزامات کا جواب دیں۔


لیکن ان کو یہ خدشہ ہوگا کہ اگر وہ اپنے ملک واپس جاتی ہیں تو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جا سکتا ہے جو انھوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ کیا۔ ان کی سب سے بڑی سیاسی حریف بیگم خالدہ ضیا جیل سے باہر آ چکی ہیں۔ حسینہ نے جماعت اسلامی پر جو پابندی لگائی تھی وہ اٹھائی جا چکی ہے اور جماعت کے رہنماؤں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ حسینہ کے ملک میں ان کے خلاف جو غصہ ہے وہ ان کے لیے نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ حالانکہ جب وہ حکومت سے استعفیٰ دے کر اور جان بچا کر ہندوستان آئی تھیں تو پہلے تو ان کے بیٹے نے کہا کہ وہ اب کبھی بنگلہ دیش نہیں جائیں گی اور سیاست نہیں کریں گی۔ لیکن پھر ان کا بیان آیا کہ وہ اپنے ملک واپس جائیں گی اور الیکشن لڑیں گی اور ایک بار پھر اقتدار میں واپس آئیں گی۔ لیکن ادھر کافی دنوں سے ان کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

شیخ حسینہ جب ہندوستان آئیں تو ان کا طیارہ غازی آباد کے قریب ہنڈن ایئر بیس پر اترا جہاں زبردست سیکورٹی میں انھیں محفوظ مقام پر رکھا گیا۔ چند روز کے بعد یہ خبر آئی کہ انھوں نے وہاں شاپنگ سینٹر میں ضروری خریداری کی ہے۔ بعض غیر مصدقہ خبروں میں بتایا گیا کہ انھیں دہلی لایا گیا ہے۔ لیکن اس کے بعد اس سلسلے میں رازداری برتی گئی اور اب کسی کو نہیں معلوم کہ وہ ہنڈن ایئر بیس ہی پر کسی محفوظ عمارت میں ہیں یا انھیں دہلی لایا گیا ہے۔ جب وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال سے پوچھا گیا کہ اگر بنگلہ دیش شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کرے تو ہندوستان کیا فیصلہ کرے گا تو انھوں نے اس سوال کو ایک مفروضہ قرار دیا اور صرف اتنا کہا کہ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ وہ شارٹ نوٹس پر ہندوستان آئی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کی جائے گی۔


جہاں تک حوالگی کا معاملہ ہے تو حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حوالگی کا مطالبہ وہاں کی عبوری حکومت نے نہیں کیا ہے بلکہ ایک سیاسی جماعت نے کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر حکومت حوالگی کا مطالبہ کرے تو اس پر بہت سوچ سمجھ کر کارروائی کی جائے گی۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دراصل ہندوستان کی مودی حکومت نے شیخ حسینہ سے ہی رابطہ رکھ کر اور وہاں کی اپوزیشن جماعتوں کو اچھوت سمجھ کر کسی قابل نہیں سمجھا جو بہت بڑی غلطی تھی۔ ملکوں کے روابط حکمرانوں کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ ملک ملک کا آپس کا معاملہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت برسراقتدار آئے اور کوئی بھی رہنما حکمراں بنے ایک سنجیدہ اور ذمہ دار ملک کو اس حکمراں اور اس حکومت سے ڈیل کرنا ہوتا ہے۔

ہندوستان کو بنگلہ دیش کی حکومت سے روابط بنانے کے ساتھ ساتھ وہاں کی اپوزیشن سے بھی روابط قائم رکھنے چاہئیں تھے۔ لیکن شیخ حسینہ نے مودی حکومت کے ذہن میں یہ بات بٹھا رکھی تھی کہ اگر وہ اقتدار سے ہٹ گئیں تو انتہا پسند طاقتیں برسراقتدار آ جائیں گی اور یہ بات ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہوگی۔ مودی حکومت کو سمجھنا چاہیے تھا کہ خطے میں بنگلہ دیش واحد ایسا ملک ہے جس سے ہندوستان کے دوستانہ مراسم ہیں۔ ورنہ تمام پڑوسوں سے معاملات خراب ہیں۔ لہٰذا اس امکان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے تھا کہ کل کو شیخ حسینہ کے مخالفین بھی اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ لہٰذا اسے دونوں سے خوشگوار تعلقات قائم رکھنے چاہئیں۔ لیکن ہندوستان نے شاید یہ سمجھ لیا کہ شیخ حسینہ ہمیشہ برسراقتدار رہیں گی۔ اس نے ان کی انتخابی دھاندلیوں اور مخالفین کے ساتھ ناروا رویوں کی حمایت کی اور جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو اب اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ حسینہ کا کیا کرے۔ انھیں بنگلہ دیش کے حوالے کرے یا نہ کرے اور اگر نہ کرے تو اپنے یہاں کب تک رکھے۔ اسے بین الاقوامی قوانین کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا اور اس کا جائزہ لینا ہوگا کہ اگر بنگلہ دیش کی حکومت ان کی حوالگی کا مطالبہ کرے تو اسے کیا کرنا ہوگا۔


جہاں تک بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے مبینہ حملوں کی بات ہے تو یہاں ہندوستان میں اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ وہاں کی طلبہ تنظیموں نے خود مندورں کی حفاظت کی ہے۔ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے ایک مند رکا دورہ کر کے سرکردہ ہندوؤں سے ملاقات کی ہے اور کہا ہے کہ ہندو اور مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ وہ ہندوؤں کے تحفظ کی گارنٹی دیتے ہیں۔ لیکن ہندوستان کا گودی میڈیا اس معاملے کو اس طرح اچھال رہا ہے جیسے وہاں ہندوؤں کی جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ حالانکہ جو بغاوت ہوئی اس دوران مسلمان بھی بڑی تعداد میں مارے گئے ہیں۔ جبکہ ہندو کم مارے گئے ہیں۔ ہندوؤں کے خلاف جو کارروائیاں ہوئی ہیں وہ ان کے مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔ وہاں کے ہندو شیخ حسینہ کی مکمل حمایتی رہے ہیں۔ چونکہ حسینہ نے اسلام پسندوں اور خاص طور پر جماعت اسلامی کے لوگوں کے خلاف سخت کارروائیاں کیں شاید اسی لیے ہندوؤں کی اکثریت حسینہ کی طرفدار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ان پر کچھ حملے ہوئے ہیں۔

لیکن ہندوستان جو کہ ہندوؤں کے مفادات کا چیمپئن بنتا ہے اور وزیر اعظم مودی ہندو ہردے سمراٹ بنے ہوئے ہیں اس کے باوجود وہاں کے ہندوؤں کے حق میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ ہندوستان چاہتا ہے کہ اس کی جگہ پر امریکہ وہاں کے ہندوؤں کے تحفظ کے سلسلے میں قدم اٹھائے۔ وزیر اعظم مودی نے جب گزشتہ دنوں جو بائڈن سے فون پر بات کی تو ہندوستانی حکومت کے مطابق انھوں نے بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی سیکورٹی کا مسئلہ بھی اٹھایا۔ حالانکہ امریکی حکومت کے بیان میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم مودی چاہتے ہیں کہ جو بائڈن اس سلسلے میں کچھ کریں۔


ادھر بی جے پی والے بنگلہ دیش کے ہندوؤں کے تحفظ کے نام پر ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک تقریر میں بنگلہ دیش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک رہیں گے تو نیک رہیں گے اور بٹیں گے تو کٹیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں جو ہوا وہ یہاں نہیں ہونے دیں گے۔ اس طرح انھوں نے اس معاملے پر ایک بیانیہ تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ انھوں نے ایسا آنے والے انتخابات کے پیش نظر کیا ہے۔ بہرحال شیخ حسینہ کے ہندوستان میں قیام اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مبینہ حملوں نے یہاں کی حکومت کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔