اسے کہتے ہیں کردار کی بلندی...سہیل انجم

اسمرتی کا مذاق اڑایا جانے لگا تو راہل گاندھی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ اسمرتی ایرانی یا کسی بھی لیڈر کے خلاف توہین آمیز تبصرہ یا فحش و ناشائستہ گفتگو نہ کریں

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی، تصویر @INCIndia</p></div>

راہل گاندھی، تصویر @INCIndia

user

سہیل انجم

آج کل میڈیا میں ایک بیان کی بہت چرچا ہے، اس پر بہت گفتگو ہو رہی ہے۔ کوئی بھی اخبار ایسا نہیں ہے جس نے اس بیان کو شائع نہ کیا ہو اور کوئی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایسا نہیں ہے جس پر وہ بیان چھایا ہوا نہ ہو۔ بے شمار یوٹیوب چینلوں نے اس بیان پر اپنی ویڈیو بنائی ہے جنھیں لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور لائیک و شیئر کیا۔ وہ بیان سینئر کانگریس رہنما اور رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کا ہے۔ اور وہ بیان کس کے بارے میں ہے؟ سابق مرکزی وزیر اور امیٹھی سے سابق رکن پارلیمنٹ اسمرتی ایران کے بارے میں ہے۔ راہل گاندھی تو نہیں لیکن اسمرتی ایران ان کو اپنا حریف سمجھتی ہیں۔ حالانکہ راہل نے کسی کو اپنا حریف نہیں سمجھا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی نہیں جن کے بارے میں وہ اکثر و بیشتر بیانات دیتے رہتے ہیں۔

دراصل قصہ یوں ہے کہ جب اسمرتی ایرانی سے دہلی میں واقع ان کا سرکاری بنگلہ خالی کرایا گیا تو بہت سے کانگریس کارکنوں یا کانگریس حامیوں نے اسمرتی کا بہت اڑایا اور ان پر خوب طنز کیے۔ سوشل میڈیا پر ان کو بری طرح ٹرول کیا گیا۔ بعض لوگوں نے تو توہین آمیز انداز میں ان کا مذاق اڑایا جس کی بالکل تائید نہیں کی جا سکتی۔ کچھ بھی ہو وہ ایک سابق مرکزی وزیر ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک خاتون ہیں۔ اگر وہ اپنی مریادا میں نہ رہیں اور نہرو گاندھی خاندان کو برا بھلا کہیں تو کہیں دوسروں کو ان کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ لیکن کیا کیا جائے، دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ سب کچھ ہنسی خوشی برداشت کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ موقع ملتے ہی بدلہ لینے یا انتقام لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

جب سوشل میڈیا پر اسمرتی کا خوب مذاق اڑایا جانے لگا تو راہل گاندھی نے ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ زندگی میں ہار اور جیت لگی رہتی ہے۔ براہ کرم محترمہ اسمرتی ایرانی یا کسی بھی لیڈر کے خلاف توہین آمیز تبصرہ یا فحش و ناشائستہ گفتگو نہ کریں۔ دوسروں کو بے عزت کرنا کمزوری کی نشانی ہے طاقت کی نہیں۔ اس طرح انھوں نے ہمیشہ کی مانند اپنے کردار کی بلندی کا مظاہرہ کیا۔ اس سے پہلے اسمرتی ایرانی نے جانے کتنی بار راہل گاندھی اور ان کی والدہ سونیا گاندھی اور یہاں تک کہ ان کی دادی اندرا گاندھی تک کی توہین کی ہے۔ لیکن دونوں ماں بیٹوں نے کسی بھی وقت ان کو ناشائستہ انداز میں جواب نہیں دیا۔ بلکہ ہمیشہ اپنے کردار کی بلندی کو پیش کیا اور کوئی جواب ہی نہیں دیا۔

جب کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے جو کہ ایک بنگالی ہیں اور ہندی کم جانتے ہیں صدر دروپدی مرمو کو ’راشٹرپتنی‘ کہہ دیا تھا تو حکومت اور بی جے پی کی جانب سے زبردست ہنگامہ برپا کیا گیا تھا۔ یہ الزام لگایا گیا کہ کانگریس آدیواسی دشمن ہے۔ اس سے ایک آدیواسی کا صدر بننا گوارہ نہیں ہو رہا ہے۔ ایوان کے باہر بھی کانگریسی لیڈروں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا اور ایوان کے اندر بھی۔ جبکہ ادھیر رنجن نے ہندی نہ جاننے کی اپنی معذوری و مجبوری بیان کی تھی لیکن سیاسی طاقت کے نشے میں چور لوگوں نے ان کی بات نہیں سنی اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ اسمرتی ایرانی نے ایوان میں چیخ چیخ کر اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر زور شور سے سونیا گاندھی معافی مانگو، سونیا گاندھی معافی مانگو کا نعرہ لگایا تھا۔ اس وقت بھی سونیا گاندھی نے ہمیشہ کی طرح اپنے بڑے پن کا مظاہرہ کیا تھا اور صرف اتنا کہا تھا کہ تم چپ رہو، میں تم سے بات نہیں کر رہی۔


اسی طرح راہل گاندھی نے بھی کبھی بھی ناشائستہ گفتگو نہیں کی۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بارہا ان کا مذاق اڑایا اور خاص طور پر ایوان کے اندر ان پر طنز و تشنیع کے تیر چلائے۔ یہاں تک کہ اس بار پارلیمنٹ کی اجلاس میں راہل کی تقریر کے جواب میں انھوں نے جو تقریر کی اور جس میں کوئی قابل ذکر بات نہیں تھی، راہل گاندھی کو بار بار بالک بدھی بالک بدھی کہہ کر ان کا مذاق اڑایا۔ ان کی توہین کرنے کے لیے کہانیاں گھڑ گھڑ کر سنائیں اور بی جے پی والے لطف لیتے رہے۔ لیکن راہل گاندھی نے نہ تو ایوان میں کوئی احتجاج کیا یا وزیر اعظم پر کوئی طنز کیا اور نہ ہی ایوان کے باہر کیا۔ اس سے قبل مودی جانے کتنی بار راہل اور سونیا کو طنز و تشنیع کے تیروں سے زخمی کر چکے ہیں۔ لیکن مبارکباد کے مستحق ہیں دونوں ماں بیٹے کہ انھوں نے اپنی خاندانی شرافت و بجابت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

نریندر مودی نے صرف پارٹی کے حوالے سے اہانت نہیں کی بلکہ ذاتی حملے بھی کیے۔ سونیا گاندھی پر ذاتی حملہ کر کے جو جو بیانات دیے ہم ان کو دوہرانا نہیں چاہتے۔ اگر سونیا اور راہل کی جگہ پر کوئی اور ہوتا تو وہ بھی ان پر ذاتی حملے کرتا اور ان کی خاندگی و ازدواجی زندگی پر مزے لے لے کر حملے کرتا۔ لیکن وہ جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس کا یہ وطیرہ ہی نہیں ہے۔ ورنہ جس طرح اربوں روپے پانی کی طرح بہا کر راہل کے امیج کو تباہ کیا گیا اس کا جواب سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی دے سکتے تھے۔ بی جے پی کا کوئی سا لیڈر ہے جس نے ان لوگوں کا مذاق نہیں اڑایا۔ لیکن داد دینے کو جی چاہتا ہے اس فیملی کو جس نے کبھی بھی اپنے خاندانی وقار کو ملیامیٹ نہیں ہونے دیا۔

آئیے مذکورہ واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔ چونکہ اسمرتی ایرانی اب رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں، امیٹھی سے نہرو گاندھی خاندان کے قریبی کے ایل شرما کے ہاتھوں ایک لاکھ ساٹھ ہزار ووٹوں سے ہار چکی ہیں اور مرکزی وزیر بھی نہیں بنائی گئی ہیں جیسے کہ 2014 میں شکست کے باوجود بنائی گئی تھیں، لہٰذا وہ سرکاری بنگلے میں رہنے کی مجاز نہیں تھیں اور اسی لیے ان سے ان کا وہ بنگلہ جس میں وہ دس برس سے قیام پذیر تھیں خالی کروایا جا رہا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب راہل گاندھی کے خلاف گجرات کی ایک عدالت نے ہتک عزت کے ایک نام نہاد مقدمے میں دو سال کی سزا سنائی تھی اور ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہو گئی تھی اور پھر ان کا بنگلہ ان سے خالی کرا لیا گیا تھا تو اس وقت اسمرتی ایرانی نے خوب بیانات دیے تھے اور راہل کا مذاق اڑایا تھا۔ حالانکہ راہل گاندھی نے خوشی خوشی بنگلے کی چابی اہل کاروں کے حوالے کی تھی۔

اسمرتی ایرانی ایک بار نہیں جانے کتنی بار راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کی توہین کر چکی ہیں۔ حالانکہ وہ 2014 میں امیٹھی سے راہل گاندھی کے مقابلے میں ہار گئی تھیں لیکن وزیر اعظم کی عنایت سے ان کو مرکز میں وزیر بنایا گیا اور انھیں راجیہ سبھا میں لایا گیا۔ انھوں نے 2019 میں راہل گاندھی کو ہرا دیا تھا۔ حالانکہ جس طرح راہل کی شکست ہوئی تھی اس پر کافی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا اور امیٹھی کے عوام نے تو یہاں تک کہا تھا کہ انتظامیہ کے ساتھ مل کر انھیں ہرایا گیا ہے۔ اس کے بعد اسمرتی ایرانی کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔ جب حالیہ پارلیمانی انتخابات میں راہل نے امیٹھی سے لڑنے سے انکار کر دیا تو اسمرتی نے سینہ ٹھونک ٹھونک کر کہا تھا کہ راہل ان سے ڈر گئے ہیں۔ ان میں ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔

بہرحال اپنا اپنا کردار ہوتا ہے، اپنا اپنی کیرکٹر ہوتا ہے۔ خاندانی نجابت و شرات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ورنہ اسمرتی ایرانی کی ذاتی زندگی کو اچھالنے کے بھی کافی مواقع ہیں۔ لیکن یہ فیملی پہلے بھی خاموش تھی اور اب بھی خاموش ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسمرتی ایرانی راہل کے بیان سے کوئی سبق سیکھیں گی یا اپنے ناشائستہ رویے اور متکبرانہ مزاج کا مظاہرہ کرتی رہیں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔