راہل اور پرینکا گاندھی نئے سیاسی اوتار میں...سہیل انجم

کہاں وزیر اعظم نریندر مودی راہل گاندھی کو اپنا اصل حریف سمجھ کر ان پر طرح طرح سے طنز کرتے نہیں تھکتے تھے اور کہاں اب ان کو قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ہمیشہ راہل گاندھی کا سامنا کرنا پڑے گا

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی / قومی آواز / وپن</p></div>

راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی / قومی آواز / وپن

user

سہیل انجم

حالیہ پارلیمانی انتخابات میں دو شخصیات سیاسی منظر نامے پر اس طرح نمایاں انداز میں ابھر کر سامنے آئی ہیں کہ انھیں کوئی بھی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ نہ عوام، نہ سیاست داں اور نہ ہی ملکی و بین الاقوامی میڈیا۔ یہ دونوں شخصیات ہیں سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی۔ اول الذکر نے تو اپنی یاتراؤں کی مدد سے اپنا سیاسی قد اتنا بلند کر لیا تھا کہ ان کی حریف سیاسی جماعت بی جے پی کی ان کے قد کو کم کرنے کی کوئی بھی کوشش کارگر ثابت نہیں ہو سکی۔ پرینکا گاندھی نے بھی جو کہ کئی برسوں سے سیاست کے خارزار میں اپنے تلووؤں کو لہو لیان کر رہی ہیں، انتخابات سے قبل ہی اپنی ایک شناخت قائم کر لی تھی۔ لیکن 2024 کے پارلیمانی انتخابات نے ان دونوں سیاست دانوں کے سیاسی کردار کو اس طرح نکھار دیا ہے کہ ان کی چمک دمک تادیر قائم رہے گی۔

راہل گاندھی نے جس خود اعتمادی، محنت و مشقت، لامرعوبیت اور حق گوئی کے ساتھ اپنی سیاسی زندگی کو آگے بڑھایا ہے وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ جس طرح بی جے پی اور اس کے آئی ٹی سیل نے ان کی امیج کو خراب کرنے کی مہم چلائی اور اس محاذ پر اربوں روپے خرچ کیے، کوئی دوسرا سیاست داں ہوتا تو چپ ہو کر گھر بیٹھ جاتا۔ لیکن وہ جس طرح بے خوفی کے ساتھ بی جے پی اور بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کی پالیسیوں کے خلاف بولتے ہیں اور وہ بھی ایسے ماحول میں جبکہ حکومت نے مخالفین کو چپ کرانے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈے اختیار کیے، راہل کی جرأت مندی کی ایک مثال ہے۔ حالانکہ ایک لچر سے معاملے میں ان کے خلاف فیصلہ سنایا گیا اور اس کی لوک سبھا کی رکنیت اور رہائش دونوں چھین لی گئی۔ اس کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔


انھوں نے پارلیمانی انتخابات کے دوران جس سوجھ بوجھ اور دانشمندی کا ثبوت دیا اس کی بھی مثال کم ہی ملے گی۔ کیا کوئی اور لیڈر ہوتا تو کانگریس جیسی ایک صدی سے بھی زائد پرانی پارٹی سے اس طرح جھک کر انتخابی مفاہمت کرواتا۔ کیا کوئی اور ہوتا تو اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ 80 میں سے صرف 17 سیٹوں پر سمجھوتہ کرتا۔ لیکن انھوں نے حالات کو بھانپ لیا تھا اور اس کا اندازہ کر لیا تھا کہ کبھی کبھی جھک کر سمجھوتہ کرنا بھی مستقبل کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے اور ہوا وہی۔ اس سمجھوتے کے نتیجے ہی میں سماجوادی اور کانگریس کو اتنی نشستیں مل گئیں۔ ورنہ اگر انھوں نے اکڑ دکھائی ہوتی کہ ہم سب سے بڑی اور پرانی پارٹی ہیں ہم اتنی کم سیٹوں پر سمجھوتہ نہیں کریں گے تو دونوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا۔

راہل گاندھی نے امیٹھی، رائے بریلی اور وائناڈ کی سیٹوں کے سلسلے میں جو فیصلے کیے وہ بھی ان کی سیاسی دانشمندی کی علامت ہیں۔ حالانکہ وہ اگر امیٹھی سے لڑتے تو اس بار ریکارڈ ووٹوں سے کامیاب ہوتے۔ لیکن وہ ایک خوددار انسان ہیں۔ ایک بار جب امیٹھی کے لوگوں نے ان کو اہمیت نہیں دی تو ان کے دل کو تکلیف پہنچی لہٰذا اس سیٹ سے ان کے خاندان کا کوئی بھی شخص الیکشن نہیں لڑا۔ لیکن پرینکا گاندھی کی جی توڑ محنت نے وہاں سے کانگریس کے امیدوار کو جتا دیا اور انتہائی مغرور اسمرتی ایرانی کو شکست فاش ہوئی۔ راہل نے اپنی والدہ سونیا گاندھی کی سیٹ رائے بریلی سے لڑنے اور اس کے بعد اس سیٹ کو اپنے پاس رکھنے، وائناڈ کو چھوڑنے اور وہاں سے پرینکا کو لڑانے کا جو فیصلہ کیا وہ بھی انتہائی دانشمندی کا مظاہرہ ہے۔


کہتے ہیں کہ وقت پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ کہاں وزیر اعظم نریندر مودی راہل گاندھی کو اپنا اصل حریف سمجھ کر ان کو خاطر میں لاتے تھے اور ان پر طرح طرح سے طنز کرتے نہیں تھکتے تھے اور کہاں اب ان کو قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ہمیشہ راہل گاندھی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالانکہ مودی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ کون راہل گاندھی؟ لیکن اب ان کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ کون راہل گاندھی۔ ان کو اسپیکر کے انتخاب کے بعد ان کو اپنے ساتھ اسپیکر کی کرسی تک ساتھ رکھنا ہی پڑا۔ سمجھا جاتا ہے کہ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اب راہل مختلف کمیٹیوں میں رہیں گے اور اس طرح وزیر اعظم مودی اور بی جے پی لیڈروں کو ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جہاں تک پرینکا گاندھی کا معاملہ ہے تو انھوں نے انتخابی مہم کے دوران یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے بھائی راہل گاندھی کا دایاں بازو بن کر کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ اب جبکہ وہ وائناڈ سے الیکشن لڑنے جا رہی ہیں اور ان کی جیت کے امکانات قوی ہیں تو ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ وہ لوک سبھا میں اپنے بھائی کے لیے ڈھال بنی رہیں گی۔ لوک سبھا میں ان کی موجودگی جہاں کانگریس کے لیے حوصلہ بخش ثابت ہوگی وہیں اپوزیشن کے لیے بھی مفید ہوگی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لوک سبھا میں اپوزیشن کی آواز طاقتور انداز میں بلند کریں گی۔ پرینکا کے اندر تقریر کرنے کی زبردست صلاحیت ہے۔ وہ غیر جذباتی اور غیر مشتعل انداز میں اپنی بات رکھتی ہیں اور سلیقے کے ساتھ رکھتی ہیں۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ خود کو عوام سے بڑی آسانی کے ساتھ جوڑ لیتی ہیں۔ ان کے درمیان جا کر بیٹھ جائیں گی اور ان کے ساتھ گھل مل کر باتیں کرنے لگی گی۔ ایسی خو بیاں ایک سیاست داں کو کامیاب سیاست داں بناتی ہیں۔


ان میں متعدد خوبیاں ہیں۔ انھوں نے انتخابات کے دوران اپنی اہلیت و لیاقت کا ثبوت دے دیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران راہل گاندھی جہاں ملک کو درپیش مسائل اٹھاتے رہے اور ان مسائل کی بنیاد پر وزیر اعظم نریندر مودی کو گھیرتے رہے تو وہیں پرینکا نے مودی کے الزامات کے جواب دینے کا محاذ سنبھال رکھا تھا۔ انھوں نے وزیر اعظم کے ہر الزام کا جواب دیا۔ انھوں نے ایک تقریر میں انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ انھوں نے اپنے والد کو ٹکڑوں میں حاصل کیا تھا تو وہ موقع بہت ہی پرسوز اور دلدوز ہو گیا تھا۔ خاندانی سیاست کے طعنے کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کی دادی اور والد نے ملک کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دے دی۔ وہ وزیر اعظم سے سوال کرتیں کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز پر بولنے کے بجائے ادھر ادھر کی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کی ایک انتخابی مہم کے دوران جب نریندر مودی نے کہا کہ کانگریس بوڑھی ہو گئی ہے تو انھوں نے ایک عوامی تقریر کے دوران مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ کیا میں آپ لوگوں کو بوڑھی لگتی ہوں۔

وہ اپنی دادی، والد، والدہ اور بھائی کے مانند انتہائی شائستہ اور مہذب ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریروں سے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک خاندانی اقدار کی حامل ہیں۔ چھچھورا پن اور غیر معیاری زبان ان کو پسند نہیں ہے۔ انھوں نے انتخابات کے دوران درجنوں ریلیوں سے خطاب کیا اور متعدد روڈ شوز کیے لیکن انھوں نے کسی بھی موقع پر کوئی غلط زبان استعمال نہیں کی۔ انھوں نے ہمیشہ تہذیب کا دامن تھامے رکھا۔ مخالفین کی جانب سے ان لوگوں کو مشتعل کرنے اور ورغلانے کی جانے کتنی کوششیں کی گئیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی شائستگی کو خیرباد نہیں کہا۔ انھوں نے ہمیشہ شرافت کو اپنا شیوہ بنائے رکھا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ دونوں بھائی بہن کانگریس کی نشاۃ ثانیہ کا محرک ثبت ہوں گے اور وہ تاریخی پارٹی جو گمنامی کے غار میں گرنے والی تھی اپنے نئے سیاسی اوتار کی بدولت اس کو نئی زندگی عطا کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔