لال قلعہ سے ایک تھکی ہاری تقریر... سہیل انجم

وزیر اعظم مودی نے یومِ آزادی پر لال قلعہ سے تقریر میں پرانا اور گھسا پٹا ریکارڈ بجایا، ہاں یہ ضرور رہا کہ اس بار انھوں نے اس خطاب کو اپنی پارٹی بی جے پی کی پالیسیوں کے پرچار کے لیے وقف کر دیا

<div class="paragraphs"><p>لال قلعہ سے خطاب کرتے وزیر اعظم مودی / یو این آئی</p></div>

لال قلعہ سے خطاب کرتے وزیر اعظم مودی / یو این آئی

user

سہیل انجم

اپنی حکومت کی تیسری مدت میں پہلے یوم آزادی پر لال قلعہ کی فصیل سے ہونے والی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر انتہائی بورنگ اور مایوس کن رہی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ تھکے ہوئے ہوں۔ شکست خوردہ ہوں۔ گھبراہٹ میں مبتلا ہوں۔ عجلت پسندی کے شکار ہوں۔ ان کے پاس کوئی نیا ایشو نہ ہو۔ کہنے کے لیے کوئی نئی بات نہ ہو۔ یوں تو انھوں نے یوم آزادی پر اب تک کی اپنی سب سے لمبی تقریر کی یعنی 103 منٹ کی۔ جبکہ اس سے پہلے ان کی سب سے لمبی تقریر کا دورانیہ 96 منٹ تھا۔ لیکن اس 103 منٹ کی تقریر میں ایسا کچھ نہیں تھا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ انھوں نے ملک کو کوئی نیا وژن دیا۔ کوئی نیا منصوبہ پیش کیا۔ کوئی ایسی با ت کہی جو بڑی پرکشش ہو۔ یا کوئی ایسی بات کہی جو ملک اور اہل ملک کی رگوں میں نیا جوش بھر دے۔

اس سے قبل کی ان کی تقریروں کا اگر موجودہ تقریر سے موازنہ کیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ انھوں نے پرانا اور گھسا پٹا ریکارڈ بجایا۔ ہاں یہ ضرور رہا کہ اس بار انھوں نے یوم آزادی کے خطاب کو اپنی پارٹی بی جے پی کی پالیسیوں کے پرچار کے لیے وقف کر دیا۔ خواہ یونیفارم سول کوڈ کا معاملہ ہو یا ون نیشن ون الیکشن کا۔ یا دوسرے ایشوز ہوں۔ انھوں نے ایسی بہت سی باتیں بھی کہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آئیے سب سے پہلے یونیفارم سول کوڈ کے معاملے کو لیتے ہیں۔

قارئین کو معلوم ہوگا کہ بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے پر تین ایشوز سرِ فہرست رہے ہیں۔ ایک ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، دوسرا جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ اور تیسرا یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ۔ اس نے اول الذکر دو ایجنڈہ پورا کر لیا ہے، تیسرا باقی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ رام مندر کی تعمیر میں خوب گھوٹالے ہوئے جس کا ایک ثبوت مندر کی چھت سے پانی کا ٹپکنا اور رام پتھ کا ٹوٹ پھوٹ کر گڈھوں میں تبدیل ہو جانا ہے۔ اسی طرح جموں و کشمیر میں اب بھی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا ہے۔


بی جے پی ابھی تک یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی بات کرتی رہی ہے۔ لیکن اب وزیر اعظم نریندر مودی نے اس معاملے کو ایک نیا رنگ دے دیا۔ وہ بی جے پی جس کو سیکولرزم سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ جو سیکولرزم کی مخالف ہے اور اس کے نام پر اپوزیشن کا مذاق اڑاتی رہی ہے اب اس کے سب سے بڑے رہنما نے یونیفارم سول کوڈ کا نام سیکولر سول کوڈ کر دیا۔ لیکن اس سے قابل مذمت بات یہ ہے کہ انھوں نے اب تک جو سول کوڈ نافذ ہے اس کو فرقہ پرست کوڈ قرار دے دیا اور یہ کہہ دیا کہ ہم 75 برس سے جس سول کوڈ کو لے کر جی رہے ہیں وہ کمیونل ہے اور مذہب کی بنیاد پر عوام میں تفریق پیدا کرتا ہے۔ وہ بی جے پی جو مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اب اس کے رہنما نے سول کوڈ کو عوام کو تقسیم کرنے والا قرار دے دیا۔

کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے بجا طور پر وزیر اعظم کے اس بیان کی مذمت کی ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ جو سول کوڈ نافذ ہے وہ فرقہ پرست ہے آئین کے خالق بھیم راؤ امبیڈکر کی سخت توہین ہے۔ انھوں نے فیملی لا کی اصلاحات سے متعلق حکومت کے لا کمیشن کی مشاورتی دستاویز کا حوالہ دیا جس میں ملک کے مذہبی و ثقافتی تنوع کی ستائش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ تنوع باعثِ مسرت ہے۔ دستاویز کے مطابق اختلاف رائے کا مطلب تفریق نہیں بلکہ یہ ایک مضبوط جمہوریت کی نشانی ہے۔ سی پی آئی، سی پی آئی ایم، راشٹریہ جنتا دل اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے بھی وزیر اعظم کے بیان کی مخالفت کی ہے اور اسے بی جے پی کی نظریاتی سرپرست جماعت آر ایس ایس کا ایجنڈہ قرار دیا ہے۔


یونیفارم سول کوڈ کی جگہ پر سیکولر سول کوڈ کے نفاذ کی بات پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد حلیف جماعتوں کو مطمئن کرنا ہے۔ یعنی اب چونکہ سیکولر سول کوڈ نافذ ہوگا لہٰذا حلیف جماعتیں اور اپوزیشن کے لوگ اس کی مخالفت نہیں کر پائیں گے۔ ایسا بی جے پی کے لیڈروں کا بھی خیال ہے۔ لیکن کیا شراب کے بوتل کا لیبل بدل دینے اور اس پر روح افزا لکھ دیے جانے سے واقعی شراب روح افزا بن جائے گی۔ یا زہر کا نام امرت رکھ دینے سے کیا اس کی خاصیت بدل جائے گی اور وہ تریاق کا کام کرنے لگے گا۔ اسی طرح کیا یونیفارم سول کوڈ کا نام سیکولر سول کوڈ رکھ دینے سے وہ واقعی سیکولر ہو جائے گا۔

بلکہ سچائی یہ ہے کہ اس وقت مختلف مذاہب کے جو سول کوڈ نافذ ہیں وہ سیکولر سول کوڈ ہیں۔ کیونکہ ان کے توسط سے سیکولرازم کا پرچار ہو رہا ہے۔ سیکولرازم یہی ہے کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جائے۔ تام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر چلنے کا حق دیا جائے۔ کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔ سب کو مساویانہ حقوق حاصل ہوں۔ کسی کے ساتھ بلا تفریق مذہب و ملت امتیاز نہ برتا جائے۔ یہ ہے سیکولرازم کی موٹی سی تشریح۔ لیکن بی جے پی جو سول کوڈ لانا چاہتی ہے کیا وہ واقعی سیکولر سول کوڈ ہوگا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ دراصل وہی فرقہ پرست سول کوڈ ہوگا۔ جو کوڈ نافذ ہے وہ فرقہ پرست نہیں ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے بیان دیا۔

اسی طرح ون نیشن ون الیکشن بھی بی جے پی کا ایجنڈہ ہے۔ وہ اس کی آڑ میں ملک میں ون نیشن ون پارٹی کا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس آئیڈیا کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس روز وزیر اعظم نے ون نیشن ون الیکشن کی بات کہی اس کے اگلے روز ہی اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے چار ریاستوں میں انتخابات کے پروگراموں کے اعلان کے لیے پریس کانفرنس کی اور اعلان صرف دو ریاستوں جموں و کشمیر اور ہریانہ کے لیے کیا۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کا اعلان نہیں کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت یا وزیر اعظم کہتے کچھ ہیں اور حقیقتاً وہ کرنا کچھ اور چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور ملک کے نوجوان مختلف شعبوں میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن روزگار کا عالم یہ ہے کہ اگر چپراسی کی بھی دس ویکنسی نکلتی ہے تو دس ہزار لوگ اپلائی کرتے ہیں۔ بیچارے نوجوان چھلانگ لگائیں تو کہاں لگائیں۔ فوج کی مستقل ملازمت کو چار سالہ کر دیا گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج بھارت میں بنے ہوئے کھلونے پوری دنیا میں سپلائی ہو رہے ہیں۔ کہاں ہو رہے ہیں بھائی۔ چین کے کھلونوں سے بھارت کے بازار بھرے پڑے ہیں۔ ابھی پندرہ اگست پر پتنگ بازی کی گئی اور چائنیز مانجھے کا خوب استعمال ہوا۔ غرضیکہ وزیر اعظم کی تقریر ایسا لگتا تھا کہ ایک شکست خوردہ وزیر اعظم کی تقریر ہے۔ ان میں پہلے جو خود اعتمادی نظر آ رہی تھی وہ بھی نہیں دکھائی دی۔ مجموعی طور پر یوم آزادی پر لال قلعے کی فصیل سے ایک مایوس کن تقریر سننے کو ملی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔