اربوں روپے کی وقف املاک کو ہڑپنے کی سازش... سہیل انجم
وقف کونسل اور بورڈوں میں دو خواتین کے تقرر، جو مسلم یا غیر مسلم ہو سکتی ہیں اور اوقاف سے ہونے والی آمدنی کو بیوہ، مطلقہ اور یتیموں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جانے کی تجویز رکھی گئی ہے
بی جے پی کے زیر قیادت مرکزی حکومت اپنے سابقہ دو ادوار میں بھی مسلمانوں کے شرعی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے اور موجودہ حکومت بھی کر رہی ہے۔ وہ ایسے مواقع ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتی ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی شعار پر بھی حملہ کیا جائے اور ان کے مفادات پر بھی۔ اس کی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ دو حلیف جماعتوں کی بیساکھیوں پر چلنے والی موجودہ حکومت نے اب مسلمانوں کی لاکھوں کروڑ کی اوقاف املاک کو ہڑپنے کی چال چلی ہے۔ اس نے 1923 کے وقف ایکٹ کو منسوخ کر دیا اور 1995 کے وقف ایکٹ میں 44 ترامیم کی ہیں۔ یہ تمام ترامیم وقف کی املاک کو حکومت کی جھولی میں ڈالنے والی ہیں۔
ترامیم میں سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں دو خواتین کے تقرر، جو مسلم یا غیر مسلم ہو سکتی ہیں اور اوقاف سے ہونے والی آمدنی کو بیوہ، مطلقہ اور یتیموں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جانے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہی شخص اپنی جائداد وقف کر سکتا ہے جو کم از کم پانچ سال سے اسلام پر کاربند ہو اور اس جائداد کا مالک ہو۔ وقف جائدادوں کا فیصلہ اور تعین کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر سروے کر کے کرے گا۔ وقف بورڈوں میں شیعہ، سنی، بوہرہ، آغاخانی اور پسماندہ مسلم برادری کے لوگوں کی نمائندگی ہوگی۔ اس میں دیگر ترامیم بھی کی گئی ہیں۔ حکومت کے مطابق اس کا مقصد ایک سینٹرل پورٹل کے ذریعے اوقاف کی جائدادوں کے رجسٹریشن کے عمل کو مضبوط کرنا ہے۔
ان ترامیم کی خامیوں پر پورے ملک میں گفتگو ہو رہی ہے۔ یہ عجیب تماشہ ہے کہ خدا کے نام پر اور مذہبی و رفاہی کاموں کے لیے مسلمانوں کی جانب سے وقف کی جانے والی ان کی جائدادوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار کلکٹر کو دے دیا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بورڈ کی کمیٹیوں میں غیر مسلموں کو بھی شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔ جبکہ ہندو بورڈوں اور مندروں کے انتظام و انصرام سے متعلق کمیٹیوں میں قانون کے مطابق صرف ہندو ہو سکتے ہیں۔ جین سکھ پارسی اور بودھ وغیرہ بھی نہیں ہو سکتے۔ لیکن مسلمانوں کی املاک کے منتظم اداروں میں ہندوؤں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی جائداد کے بارے میں وقف بورڈ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ وہ وقف جائداد ہے یا نہیں۔ بلکہ اس کا سروے کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر کرے گا اور وہ اس جائداد کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ یعنی وہ یہ بتائے گا کہ فلاں جائداد وقف گزٹ میں درج ہے یا نہیں۔ جبکہ صدیوں سے مسلمانوں کی جانب سے جائدادیں خدا کے نام پر وقف کی جاتی رہی ہیں۔ اب ان تمام کا اندراج تو گزٹ میں نہیں ملے گا اور اگر مل بھی جائے تو کلکٹر اپنی رپورٹ میں کہہ دے گا کہ اس جائداد کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عقل کی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص صرف اپنی جائداد کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے دوسرے کی نہیں۔ لیکن یہاں یہ ہو رہا ہے کہ مسلمان اپنی جائداد کا فیصلہ نہیں کر سکتے بلکہ کلکٹر کرے گا یا بورڈ کا ہندو ممبر کرے گا۔
ترامیم کے مطابق اگر کوئی ایسا شخص جو نو مسلم ہو لیکن اس کے مشرف بہ اسلام ہونے کو پانچ سال نہیں ہوئے ہوں تو وہ اپنی جائداد خدا کے نام پر وقف نہیں کر سکتا۔ یہ بات بھی اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ جب کوئی شخص مسلمان ہو گیا تو فوری طور پر ا س کو یہ حق حاصل ہو گیا کہ وہ اپنے اور اپنی جائداد کے بارے میں اسلامی شریعت کی روشنی میں فیصلہ کرے۔ حکومت کہتی ہے کہ وقف کی جائدادوں پر مافیاؤں کا قبضہ ہے۔ اگر مافیاؤں کا قبضہ ہے تو کیا اس طرح ان قبضوں کو واگزار کرایا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے مسلمانوں نے بھی وقف کی جائدادوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور انھیں ہر حال میں واگزار کرایا جانا چاہیے لیکن ان سے زیادہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ حکومتوں نے وقف کی زمین پر اپنے دفاتر قائم کر لیے ہیں۔ اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ وقف کی زمین پر بنا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے ایسے سرکاری دفاتر ہیں جو وقف کی زمینوں پر قائم ہیں۔ کیا حکومت ان ناجائز قبضوں کو خالی کرانے کے لیے تیار ہے۔
مسلم تنظیموں اور اپوزیشن کی جانب سے بجا طور پر اس بل کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ جب یہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو اسے ظالمانہ، جمہوری حقوق پر حملہ اور مسلمانوں کے شرعی امور میں مداخلت قرار دیا گیا۔ اس احتجاج کا نتیجہ ہے کہ حکومت اس بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے حوالے کرنے پر راضی ہوئے۔ یہ کمیٹی تیس ارکان پر مشتمل ہوگی اور اس میں حکومت کے علاوہ اپوزیشن کے بھی ارکان ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کی دو حلیف جماعتوں جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی نے اندر ہی اندر اس بل کی مخالفت کی تھی اور اس کے زور دینے پر ہی اسے جے پی سی کے حوالے کیا گیا ہے۔ دراصل ان پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹ کی فکر ہے۔ ورنہ وہ کیوں اس کی مخالفت کرتیں۔
مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ جو ترامیم کی گئی ہیں ان سے وقف جائدادوں کی حیثیت اور نوعیت بدل جائے گی اور حکومت کے لیے ان پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ وقف جائدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کی دی ہوئی وہ عطیات ہیں جنھیں مذہبی و خیراتی کاموں کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ وقف ایکٹ اور وقف جائدادوں کو دستور اور شریعت اپلی کیشن ایکٹ 1937 کا بھی تحفظ حاصل ہے۔ جو ترامیم کی گئی ہیں وہ اسلامی قانون کے خلاف ہیں۔ بل کی منظوری سے کلکٹر راج وجود میں آئے گا۔ وقف ٹربیونل کے فیصلے بھی آخری نہیں ہوں گے۔ ملکیت کے سلسلے میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہوگا۔ ان کے مطابق اس بل کے ذریعے مسلم علما کا یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ وقف کے بارے میں اسلامی قانون کی تعین و تشریح کریں۔ ان ترامیم سے وقف بورڈوں کی خود مختاری ختم ہو جائے گی اور اوقاف کی جائدادوں کا مقصد متاثر ہو جائے گا۔ وقف جائدادوں کے تنازع کو نمٹانے میں قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوں گی۔
قانونی ماہرین بھی ان ترامیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایسا سمجھ لیا ہے وقف جائدادیں سرکاری ملکیت ہیں۔ جب حکومت کسی چیز کو اپنا سمجھ لیتی ہے تو وہ اس میں مداخلت کرتی ہے۔ چوں کہ یہ جائدادیں مذہبی و خیراتی کاموں کے لیے دی گئی ہیں اس لیے ان کے انتظام میں حکومت کا ریگولیشن کم سے کم ہونا چاہیے۔ اوقاف مشترکہ طور پر مسلم برادری کی املاک ہیں اس لیے ان کو مسلمانوں کو ہی ریگولیٹ کرنا چاہیے۔ ہر وقف جائداد کے ساتھ اس کے مقاصد ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان مقاصد پر ضرب نہیں پڑنی چاہیے۔ اگر اوقاف کے انتظام میں حکومت کی مداخلت ہو جائے گی تو وہ ان کا استعمال پتہ نہیں کیسے کرے گی۔ کلکٹر اور تحصیلدار ان املاک کے بارے میں پتہ نہیں کیا رپورٹ بنائیں گے۔ اس سے پورا نظام متاثر ہو جائے گا۔ ترامیم میں کچھ ایسی دفعات بھی ہیں جو بنیادی حقوق کی بری طرح پامالی کرتی ہیں اس لیے عدالت کو اس معاملے میں مداخلت کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ ملک میں 32 ریاستوں میں وقف بورڈز قائم ہیں جو اوقاف کی جائدادوں کا انتظام و انصرام کرتے ہیں۔ حکومت نے 1964 میں سینٹرل وقف کونسل نام سے ایک مرکزی ادارہ قائم کیا تھا جس کا کام ریاستی وقف بورڈوں کی نگرانی اور ان کو مشورے دینا ہے۔ حکومت نے 1995 میں نیا وقف ایکٹ بنایا اور 2013 میں اس میں ترمیم کر کے ریاستی وقف بورڈوں کو مزید اختیارات دیے گئے۔ وقف جائدادوں سے متعلق کسی بھی تنازعے میں آخری فیصلہ وقف ٹربیونل کا ہوتا ہے۔ لیکن نئی ترامیم میں ٹریبونل کے اختیارات کم کر دیے گئے ہیں۔
ملک میں املاک کے اعتبار سے وزارت ریلویز اور دفاع کے بعد وقف ادارہ تیسرا بڑا ادارہ ہے۔ اس کے پاس 8.7 لاکھ جائدادیں ہیں جو پورے ملک میں 9.4 لاکھ ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی مجموعی قیمت 1.2 لاکھ کروڑ روپے ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔