مادھبی پوری بُچ: اڈانی کے مفاد کے لیے سیبی کی قربانی؟
سیبی کی سربراہ بننے سے قبل مادھبی پوری بچ کی تقریباً 60 کروڑ روپئے سالانہ کی آمدنی تھی جسے انہوں نے ٹھوکر مار کر سیبی کی سربراہ کے طور پر 30 لاکھ روپئے سالانہ کی تنخواہ آخر کیوں قبول کی؟
ہمارے مودی جی کے اندھ بھکت بھی کمال کے ہیں اور ہر موقع پر اپنی ’عقل مندی‘ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ ہنڈن برگ نے الزام لگایا سیبی کی سربراہ مادھبی پوری پر، نام آیا آڈانی کا، اپوزیشن نے سوال پوچھا حکومت سے مگر جواب بیچارے ہمارے مودی جی کے بھکت دے رہے ہیں! اور جواب بھی ایسا کہ یہ شک یقین میں تبدیل ہو جائے کہ اس میں صرف مودی جی ہی نہیں بلکہ پوری بی جے پی شامل ہے۔ گویا یہ لوگ اپوزیشن کو جواب دینے کے بجائے خود پی ایم مودی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ شاید اسے ہی ’سیلف گول‘ کرنا کہتے ہیں۔
اڈانی میں سیبی سربراہ کی سرمایہ کاری سے متعلق ہنڈن برگ کے الزامات سے کم از کم اس سوال کا جواب ضرور مل گیا ہے جو راہل گاندھی نے کیا تھا کہ اڈانی کمپنی میں لگے ہوئے 20 ہزار کروڑ کس کے ہیں؟ راہل گاندھی نے اسے بے نامی رقم قرار دیا تھا یعنی رقم لگانے والے کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ مگر ہنڈن برگ کی اس تازہ رپورٹ سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ یہ رقم بے نامی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کچھ اہم نام ہیں اور جن میں سے ایک نام مادھبی پوری بچ کا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ایسے اور بھی کئی نام ہوں جو اگر منظر عام پر آ جائیں تو اپوزیشن کی جانب سے لگنے والے اس نعرے ’اڈانی مودی بھائی بھائی‘ کی کچھ اور پرتیں کھلیں۔
ہنڈن برگ کے الزامات کی سیبی سربراہ نے تردید کی ہے لیکن یہ تردید بھی ایسی ہے کہ اسے اعتراف کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہنڈن برگ نے ان کے اور ان کے شوہر کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے ہیں اور ان کے وقار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اڈانی میں ان کا جو سرمایہ لگایا گیا تھا وہ 2015 میں یعنی سیبی میں ان کی شمولیت سے تقریباً دو سال پہلے کیا گیا تھا۔ لیکن اس تردید کے بعد انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لیے ایک ایسا سخت سوال پیدا کر لیا ہے جس کا جواب شاید وہ نہ دے سکیں اور جو بہت ممکن ہے کہ اسی طرح دیش بھکتی و نیشنلزم کے شور میں دب جائے جس طرح اڈانی پر شیئر بازار کو متاثر کرنے کا الزام دب سا گیا تھا۔
وہ سوال توضیح یعنی ڈسکلوزر کا ہے۔ کسی اہم یا ذمہ دار عہدے پر فائز شخص کے لیے اپنے متعلق ڈسکلوزر دینا نہایت ضروری ہوا کرتا ہے۔ سرمایہ کاری کے معاملے میں تو یہ لازمی ہوتا ہے۔ مادھبی پوری بچ جس ادارے کی سربراہ ہیں اس کے یہاں تو ڈسکلوزر ایک قانونی حیثیت رکھتا ہے، جس کی خلاف ورزی کرنے پر سیبی کی جانب سے کارروائی کی جاتی ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ سیبی سربراہ کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل مادھبی پوری بچ نے اڈانی میں فنڈنگ کے اس معاملے کو پوشیدہ رکھا۔ وہ 2015 میں سیبی کی سربراہ بنیں اور 2018 تک یہ فنڈ ان کے نام پر رہا۔ ایسے میں انہیں اس کا ڈسکلوزر دینا چاہئے تھا، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب جب سرمایہ کاروں کے مفاد کے تحفظ کرنے والے ادارے کے سربراہ کی جانب سے اس اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو پھر ادارے کی ساکھ پر سوال اٹھنا تو لازمی ہے۔
اس معاملے میں ایک اور دلچسپ پہلو سامنے آیا ہے جس پر بہت کم بات کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت کی جانب سے مادھبی پوری بچ کو اس عہدے پر کیوں فائز کیا گیا اور اس کا کیا مقصد رہا ہوگا؟ وہ پہلو یہ ہے کہ مادھبی پوری بچ کا سنگار پور میں مالیاتی کنسلٹنگ کا کاروبار تھا جس سے وہ سالانہ 60 کروڑ روپے تک کماتی تھیں۔ یہ کاروبار وہ اور ان کے شوہر دونوں مل کر کرتے تھے۔ پھر انہوں نے اپنی یہ خطیر آمدنی چھوڑ کر 30 لاکھ روپے سالانہ کی تنخواہ پر سیبی میں شمولیت اختیار کر لی! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی آخر وہ کون سی ضرورت تھی کہ 60 کروڑ کو ٹھوکر مار کر وہ 30 لاکھ روپے پر راضی ہو گئیں؟ اس کا جواب مادھبی پوری بچ کے ساتھ ان اندھ بھکتوں کو بھی دینا چاہئے جو گزشتہ تین دنوں سے سوشل میڈیا پر مادھبی پوری اور پی ایم مودی کی حمایت میں جان ہلکان کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔