لوک سبھا انتخابات: عوامی مدے ہی پیسہ کی طاقت کو ہرا سکتے ہیں...سید خرم رضا

سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ پیسے اور طاقت کے دم پر ہی اقتدار پر قابض رہا جا سکتا ہے اور اس کے حصول کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی مدوں کو اہمیت نہیں دیتیں

<div class="paragraphs"><p>یو این آئی</p></div>

یو این آئی

user

سید خرم رضا

جینت چودھری ناراض چل رہے ہیں، راجپوت سماج بی جے پی سے  ناراض چل رہا ہے، کانگریس کا انتخابی منشور ایسا ہے ویسا ہے۔ ان سب کو لے کر بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ ان تمام مدوں کا ذکر اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ حکمراں جماعت انتخابات کے بنیادی مدے ’الیکٹورل بانڈ‘ کو مرکز میں نہیں لانے دینا چاہتی یعنی یہ مدے توجہ ہٹانے کے لئے ہیں۔ انتخابی مدے یعنی الیکٹورل بانڈ  کا جو تھوڑا بہت ذکر ہو تا ہے تو اس کو شراب گھوٹالے اور اروند کیجریوال کی گرفتاری سے دبا دیا جاتا ہے۔

بہرحال انتخابات میں یہ سب ہوتا رہا ہے، ہر سیاسی پارٹی کی کوشش یہی رہتی ہے کہ کس طرح اس کو گھیرنے والے مدے پیچھے رہ جائیں اور جن باتوں کی تشہیر سے اسے فائدہ ہوتا ہے وہ مدے آگے آ جائیں۔  اس سب میں کہیں نہ کہیں عوامی مدے 5 سالہ اقتدار کے لئے  ہونے والی تشہیر میں دفن ہو جاتے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو اقتدار میں رہنے کے لئے بااثر  طاقتور افراد کی حمایت حاصل ہو اور اس کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔


جن افراد کے پاس پیسہ یا طاقت ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کو اپنی اس صلاحیت کی کیا قیمت لینی چاہئے۔ وہ اپنی قیمت لیتے وقت سامنے والے کی دینے کی حیثیت اور ضرورت کا اچھی طرح جائزہ لے لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسے افراد کے خلاف کوئی اقدام نہیں لے پاتیں لیکن سیاسی جماعتیں بخوبی جانتی ہیں کہ ان کو ان افراد سے کتنی قیمت وصولنی چاہئے۔ ابھی تک کے انکشافات سے یہ تو اندازہ ہے کہ بر سر اقتدار جماعت نے  کب، کیسے  اور کتنی رقم ایسے افراد سے لی ہے؟ اس لین دین میں دونوں کے فائدے کو نظر میں رکھا گیا ہے۔ ایسے ہی طاقتور افراد سے لین دین کرتے وقت دونوں فریق کے فوائد کو ذہن میں رکھا گیا ہے۔

اس  سب کے باوجود برسر اقتدار جماعت اقتدار سے بے دخل ہو جاتی ہیں اور دوسری سیاسی جماعتیں اقتدار میں آ جاتی ہیں۔ ایسا شاید اس لئے ہوتا ہے کیونکہ برسراقتدار جماعت کے لوگ ان افراد سے ضرورت سے زیادہ  وصولنا  شروع کر دیتے ہیں اور دینے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں دھمکایا جا رہا ہے! اس لئے ان کی کوشش رہتی ہے کہ اقتدار میں بیٹھے افراد کو اقتدار سے بے دخل کر دیا جائے اور نئے افراد کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگڈور دے دی جائے جو ان کی مرضی کے فیصلے ان کی مرضی کی ادائگی کی مناسبت سے کریں۔


کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اس سارے کھیل میں بے چارے عوام کے مدے  کب اور کہاں دفن ہو جاتے ہیں! دراصل، سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ پیسے اور طاقت کے دم پر ہی اقتدار پر قابض رہا جا سکتا ہے اور اس کے حصول کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی مدوں کو  اہمیت نہیں دیتیں۔ تاہم لمبی سیاست کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ عوام کے بنیادی مدوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ پیسہ اور طاقتور افراد کسی حد تک تو فائدہ پہنچا سکتے ہیں لیکن اصل فائدہ عوامی مدوں کو اہمیت دینے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

جینت کے ناراض ہونے یا راجپوتوں کے ناراض ہونے سے اسی صورت میں نقصان ہوتا ہے اگر برسراقتدار جماعت  کا پیسہ اور طاقتور افراد والا پلہ بہت زیادہ بھاری ہو اور عوامی مدوں کا پلہ بہت ہلکا ہو۔ عوام اگر انتخابی منشور کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی تو سب نے انڈیا نامی اتحاد کی قیادت کرنے والی  کانگریس کا انتخابی منشور دیکھ لیا ہے۔ اب سب کو این ڈی اے کی قیادت کرنے والی بی جے پی کے منشور کا انتظار ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح جب ہی ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں عوامی مدوں کو ترجیح دیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔