لوک سبھا انتخابات: بے روزگاری کا جواب صرف روزگار کی فراہمی ہی ہے...سید خرم رضا
لوک سبھا انتخابات میں بے روزگاری اہم ایشو بن کر ابھری ہے۔ سیاست دانوں کی پارٹی بدلنے کی روایت جاری ہے لیکن عوام کی اصل فکر معیشت اور روزگار کی فراہمی ہے
سیاست دانوں کا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانے کا سلسلہ جاری ہے اور جس پارٹی میں بھی یہ سیاست داں شمولیت اختیار کرتے ہیں وہ پارٹی اپنے انداز سے اسے اپنے لئے بڑی کامیابی اور حریف کے لئے زبردست جھٹکے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ انتخابات کے وقت یہ عام بات ہے اور سیاست داں اپنا فائدہ اور نقصان دیکھ کر ہی ایسے فیصلے کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برسراقتدار جماعت وفاداری کی اس تبدیلی میں سب سے زیادہ فائدے میں رہتی ہے اور اگر ہوا کا رخ حکومت وقت کے خلاف ہے تو اس تبدیلی کا فائدہ حزب اختلاف کو بھی ہوتا ہے۔ وفاداریوں کی اس تبدیلی کے باوجود کئی ایشوز ایسے ہوتے ہیں جو عوام کے ذہن میں گھر کر جاتے ہیں۔
ہندوستانی عوام کو جس ایشو نے سب سے زیادہ پریشان کیا ہوا ہے وہ بے روزگاری کا ایشو ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مذہب کے رنگ میں اس طرح رنگ دیا ہے کہ وہ یہ بھول گئے کہ موجودہ حکومت نے سالانہ دو کروڑ روزگار دینے کا جو وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟ سیاست داں انتخابی تشہیر کے دوران یہ بھی خوب بتائیں گے کہ بے روزگاری نے کتنے سالوں کا ریکارڈ توڑا ہے اور کتنی آسامیاں خالی ہیں اور آگے کے لئے حکومت وقت کی کیا حکمت عملی ہے۔
ویسے تو منڈل کمیشن کی رپورٹ لاگو ہونے کے بعد سے یا یوں کہئے کہ اس کے توڑ کے طور پر حکومت نے زیادہ تر محکموں میں نجکاری کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا جس کی تشہیر اس طرح کی گئی تھی کہ سرکاری نوکری میں لوگوں کو ضرورت سے زیادہ سیکورٹی کا جو احساس ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے منتخب افراد ملازمت نہیں کرتے اور پرائیویٹ افراد زیادہ بہتر نوکری کرتے ہیں، کیونکہ ان کے اوپر ہٹائے جانے کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے پہلے تو نوکری کا وعدہ ہی کیوں کیا تھا اور وعدے کو پورا کیوں نہیں کیا گیا۔
انتخابات کا ماحول ہے اس لئے حزب اختلاف بے روزگاری کو انتخابی ایشو ضرور بنائے گی اور پوچھے گی کہ فوج میں چار سال کی نوکری والی اگنی ویر اسکیم کیوں شروع کی گئی، نوکریوں کی آسامیاں کیوں پر نہیں کی گئیں اور اگر امتحان کا اعلان ہو جائے تو پھر پیپر لیک کیوں ہو رہے ہیں اور اسامیاں کیوں پر نہیں کی جا رہی ہیں؟ یہ سب سے ایشوز ہیں جن کا جواب انتخابات کے دوران عوام کے ذہن کو پریشان ضرور کرے گا چاہے وہ کتنا بھی مذہبی کیوں نہ ہو گیا ہو کیونکہ پیٹ سب کے ساتھ جڑا ہے۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ آنے والے دن ہمارے جیسے ممالک کے لئے اچھے نہیں ہیں کیونکہ مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا سب سے زیادہ اثر ہمارے جیسے زیادہ آبادی والے ممالک کے روزگار پر ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک افرادی قوت کی قلت کو مصنوعی ذہانت سے حل کر لیں گے اور ہمارے جیسے ممالک صرف ان کے سامان کو خریدیں گے اور بیچیں گے یعنی بے روزگاری آنے والے سالوں میں انتہائی خوفناک شکل اختیار کر لے گی۔ اس کے حل کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سرکاری روزگار دئے جائیں اور ان سے کام لینے کے لئے نظر رکھی جائے تاکہ عوام کی قوت خرید تو برقرار رہے۔
حزب اختلاف سے بھی ویسے کئی سوال کئے جا سکتے ہیں لیکن ’اولڈ پنشن اسکیم‘ کے نفاذ اور بہار میں تیجسوی کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ نوکریاں فراہم کرنے کی وجہ سے حزب اختلاف کے سامنے سوالوں کی بوچھار کم رہے گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرکاری نوکری نہ دینے کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن حکومت وقت سے یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا کہ اس نے نوکریوں کا وعدہ کیوں کیا تھا اور نوکریاں اس نے کیوں نہیں دیں؟ وہ اپنے پکوڑے تلنے والے بیان سے مزید پریشانیوں سے دو چار ہو سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔