لوک سبھا انتخابات: کون سی سیاسی پارٹی کیا چال چلتی ہے یہ دیکھنا ہوگا...سید خرم رضا

لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں جہاں سیاسی پارٹیاں اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہیں۔ ’این ڈی اے‘ اور ’انڈیا‘ میں کانٹے کی ٹکر ہونے کا امکان ہے۔ انتخابی نتائج سے ملک کی سیاسی سمت کا تعین ہوگا

<div class="paragraphs"><p>لوک سبھا انتخابات 2024 / Getty Images</p></div>

لوک سبھا انتخابات 2024 / Getty Images

user

سید خرم رضا

بساط بچھ چکی ہے، ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے اپنے مہرے ایسے چلنے ہیں جس سے سامنے والے کو مات ہو جائے اور وہ خود جیت کر سامنے آئے۔ شہ مات کے اس کھیل میں ایک ایسا سیاسی اتحاد ہے جس کے پاس کچھ موافق حالات ہیں اور کچھ ایسی چیزیں ہیں جو اس کے خلاف بھی جا سکتی ہیں۔ حزب اختلاف کا اتحاد جو اپنی کوشش کر رہا ہے کہ وہ بر سر اقتدار اتحاد کو اقتدار سے بے دخل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لے لیکن اس کے لئے بھی جہاں کچھ چیزیں اس کے حق میں جاتی ہیں تو کچھ اس کے خلاف بھی ہیں لیکن سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ اس کے پاس بر سر اقتدار اتحاد کی طرح کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے۔

موٹے طور پر ملک میں دو اتحاد ہیں ایک این ڈی اے اور دوسرا ’انڈیا‘ اور دونوں میں ایک مرکزی پارٹی ہے جس کی پوری ہندوستان میں پہنچ ہے یعنی این ڈی اے میں ایسی پارٹی ہے بی جے پی اور انڈیا میں کانگریس ایسی سیاسی پارٹی ہے جس کی پہنچ پورے ہندوستان میں ہے۔ رفتہ رفتہ دونوں اتحاد کے بیچ یہ سیاسی لڑائی نظریاتی رخ اختیار کرتی جا رہی ہے اور اس رخ کے لئے حزب اختلاف کا اتحاد ہی ذمہ دار ہے۔ اس کو اس کے لئے ذمہ دار اس لئے کہا جا رہا ہے کیونکہ آر جے ڈی کے تیجسوی یادو اور کانگریس کے راہل گاندھی نے خود ممبئی کے شیواجی پارک کے اجلاس میں یہ بات کہی کہ یہ لڑائی ایک سوچ کے خلاف ہے یعنی یہ نظریات کے خلاف لڑائی ہے۔


بر سر اقتدار این ڈی اے کے حق میں یہ ہے کہ وہ اقتدار میں ہے اور اس کی بات ترجیحی بنیاد پر سنی جا سکتی ہے لیکن اس کے خلاف جو چیزیں ہیں ان میں اس کے دس سال اقتدار میں رہنے کی وجہ سے کئی سوال ہیں جن کا اسے جواب دینا ہوگا۔ اس سے عوام یہ سوال ضرور پوچھیں گے کہ ان کی زندگی بہتر بنانے کے لئے حکومت نے کیا اقدام کئے ہیں؟ کیا عوام کے اچھے دن آئے ہیں؟ کیا عوام کو سالانہ دو کروڑ نوکریاں مل گئی ہیں؟ کیا عوام کے بینک کھاتوں میں پندرہ لاکھ آ گئے ہیں؟ کیا اس کے دور میں کسانوں کی آمدنی دوگنی ہو گئی ہے؟ کیا ملک کی میڈل یافتہ خاتون پہلوانوں کی شکایت پر کام ہوا ؟ ایسے متعدد سوال ہیں جو حکومت وقت کو سننے پڑیں گے۔

حزب اختلاف انڈیا کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ نظریات کی لڑائی میں شکست کے بعد وہ بہت پیچھے چلی جائے گی۔ اس کے پاس جہاں حکومت وقت سے بہت سوال کرنے کو ہیں وہیں اس کے پاس اقتدار میں نہ ہونے کی کمی بھی ہے۔ وہ سوال تو پوچھ سکتی ہے لیکن اس کے سوال کون اٹھائے گا کیونکہ اقتدار میں نہ  ہونے کی وجہ سے مین اسٹریم میڈیا کی توجہ تو برسراقتدار اتحاد پر ہی ہوگی۔ اس کے ساتھ سب سے بڑا فرق دونوں اتحاد میں فنڈس کے تعلق سے ہے۔ برسر اقتدار اتحاد کے پاس فنڈس کی کوئی دشواری نہیں جبکہ حزب اختلاف کے اتحاد کے پاس سب سے زیادہ قلت فنڈس کی ہی نظر آ رہی ہے۔


سپریم کورٹ نے بھی فنڈس کے تعلق سے الیکٹورل بانڈز پار کارروائی شروع کر دی ہے اور اکیس مارچ تک اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے اس تعلق سے تمام تفصیلات دینے کے لئے کہا ہے یعنی یہ ہفتہ انتخابات میں تڑکا لگانے کے لئے کافی دلچسپ رہنے والا ہے۔ کیا یہ تفصیلات بر سر اقتدار اتحاد سے مزید سوال پوچھنے کے لئے کٹہرے میں کھڑا کریں گے یا یہ حزب اختلاف کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کرے گا۔ ویسے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ برسر اقتدار اتحاد کے سامنے مزید سوالوں کی بوچھار ہونے والی ہے۔  آنے والے دنوں میں الیکٹورل بانڈز پر تفصیلی گفتگو ہوگی۔

انتخابات کے لئے بساط بچھ چکی ہے، آنے والے دنوں میں کون اپنا مہرہ کیسے چلتا ہے اس پر سب کی نظریں رہیں گی۔ اس کھیل میں کون بازی مارے گا اور کس کی شکست ہوگی اس کا پتہ بھی پوری دنیا کو چار جون کو لگ جائے لیکن جو بھی ہو آنے والے دن خوب دلچسپ رہنے والے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔