لوک سبھا انتخابات: اقلیتی طبقہ کی نہیں جمہوریت کی بات کرنے کی ضرورت...سید خرم رضا
پلوی پٹیل کے ساتھ اتحاد کرنے والے اویسی پر الزام ہے کہ ان کی سیاست اقلیتوں کے بجائے خود کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اقلیتوں کو جمہوریت کی حمایت کرنی چاہیے، فرقہ پرست سیاست سے بچنا چاہیے
پورا ملک انتخابی بخار کی زد میں ہے، کہیں رہنما اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے نظر آ رہے ہیں تو کہیں سیاسی جماعتیں کسی مسئلے کو انتخابات میں اٹھانے میں مصروف ہیں۔ چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں کسی اتحاد میں شامل ہو رہی ہیں تو کچھ پارٹیاں نئے سیاسی اتحاد تشکیل دے رہی ہیں۔ حال ہی میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے اتر پردیش میں ایک سیاسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا ہے، جس کی موجودہ صدر پلوی پٹیل نے اتر پردیش اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ کو شکست دی تھی۔ پلوی پٹیل کی پارٹی کا ان انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد تھا۔
اسد الدین اویسی کے تعلق سے یہ خبریں عام تھیں کہ وہ اس مرتبہ یعنی 2024 کے عام انتخابات میں اتر پردیش سے اپنے کسی امیدوار کو نہیں کھڑا کریں گے لیکن اب ان کا اتحاد پلوی پٹیل کی سیاسی جماعت اپنا دل (کمیراوادی) سے ہو گیا ہے اس لئے ان کے تعلق سے جو چرچا کی جا رہی تھی اس پر فل اسٹاپ لگ گیا ہے۔ اویسی پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ ان کے کھڑے ہونے سے این ڈی اے اتحاد کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
پلوی پٹیل نے بھی اویسی کے ساتھ اس لئے اتحاد کیا ہے کیونکہ ان کی نظر میں اویسی کے ساتھ اقلیتی طبقہ کے ووٹر ہیں یعنی اس اتحاد کا سیدھا مطلب ہے کہ پلوی پٹیل کو اقلیتی طبقہ کے رائے دہندگان چاہئیں اور اویسی کو پلوی پٹیل کی ذات کے ووٹروں کی ضرورت ہے۔ اس اتحاد کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ اس سے بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ اس اتحاد نے ایک مرتبہ پھر اویسی پر لگنے والے الزامات پر لوگوں کو اس طرح کی بات کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
اسدالدین اویسی کی جماعت کا نام کل ہند مجلس اتحاد المسلمین ہے یعنی ہندوستان کی وہ سیاسی جماعت جو مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرتی ہے۔ یہ پارٹی بنیادی طور پر تلنگانہ کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھتی ہے اور تلنگانہ میں 7 مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں سے نشستیں جیتنے میں کامیاب رہتی ہے۔ مسلمانوں کی وکالت کرنے والے بیرسٹر اسد الدین اویسی کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی سیاست اقلیتی طبقہ کی بات کر کے خوب چمک سکتی ہے لیکن یہ غور کرنے کی بات ہے کہ ان کی جماعت سے کیا ہندوستانی اقلیتی طبقہ کا فائدہ ہوگا یا ان کی سیاست کا؟
ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی اگر صرف اقلیتوں کی بات کرتی ہے یا خود کو اقلیت حامی پارٹی ظاہر کرتی ہے تو اس کا فائدہ ملک کی صرف اس سیاسی جماعت کو ہوتا ہے جو صرف ملک کے اکثریتی طبقہ کے نام پر سیاست کرتی ہے۔ اویسی جیسے رہنماؤں کی سیاست کی وجہ سے جس طبقہ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اس کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن ان کے چند رہنماؤں کو فائدہ ضرور ہو جاتا ہے۔ اس طبقہ کے لوگ جذبات میں آ کر اپنی تعداد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی نمائندگی کی اور پریشر گروپ کی بات کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے یہ طبقہ اچھوت ہو جاتا ہے اور سماج میں علیحدگی کی علامت بن جاتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ اگر کوئی حقیقی معنوں میں اقلیتی طبقہ کا خیر خواہ ہے تو اسے اپنی سیاسی جماعت کا نام اقلیتی طبقہ سے وابستہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ایسا نام صرف اکثریتی طبقہ کی سیاست کرنے والوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ملک کے اقلیتی طبقہ کو چاہئے کہ وہ ملک کے آئین اور جمہوریت کے دفاع کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرے اور وہ کسی بھی طرح فرقہ پرست سیاست کا شکار نہ ہو۔ ملک اور اس اقلیتی طبقہ کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ملک اور جمہوریت کی بات ہو۔ اس لئے ایسی تمام جماعتوں سے پرہیز کرنا چاہئے جن کا نام ہی کسی طبقہ کی پہچان ہو۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔