لوک سبھا انتخابات: عوام انتخابی منشور دیکھ کر ہی اپنی رائے کا اظہار کریں...سید خرم رضا
انتخابی منشور ایک اہم دستاویز ہوتا ہے اور زبان سے کئے گئے وعدے زبانی جملے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ کہیں لکھے نہیں جاتے
سمجھ نہیں آ رہا کہ ابھی تک لوک سبھا انتخابات کا شور شرابہ کیوں سنائی نہیں دے رہا؟ اس کی وجہ ماہ رمضان ہے، لوگوں کی سیاست دانوں سے مایوسی ہے یا پھر عوام میں اپنی اس رائے کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ کہ وہ کس سیاسی پارٹی یا رہنما کی حمایت کر رہے ہیں؟ بہر حال وجہ جو بھی ہو لیکن ابھی تک عام انتخابات کی محض رسم ادا ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اسی رسم کے تحت کانگریس نے کل اپنا انتخابی منشور بھی جاری کر دیا۔ اس انتخابی منشور کی چہار سو تعریف ہو رہی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اگر کانگریس نے اس انتخابی منشور پر عمل کر لیا تو ملک میں بہت سارے احتجاج اور مظاہرے خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
کسی بھی سیاسی پارٹی کا انتخابی منشور انتخابات سے قبل ایک اہم دستاویز ہوتا ہے۔ کانگریس کے انتخابی منشور میں شائد ہی کوئی ایسی بات ہو جس کا احاطہ نہ کیا گیا ہو اور بہت سے مبصرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ جب کانگریس انڈیا نامی اتحاد کا حصہ ہے تو یہ انتخابی منشور اس اتحاد کا ہی ہونا چاہئے تھا۔ بہر حال ہر پارٹی اور اتحاد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انتخابی منشور اپنی مرضی کے وعدوں کو شامل کرے۔ یہ دستاویز اس لئے بھی اہم ہے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں سیاسی پارٹیاں جب رائے دہندگان کے پاس جائیں تو وہ بتائیں کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں جو وعدے اپنے منشور کے ذریعہ کئے تھے ان کو کس حد تک پورا کیا ہے اور عوام کے پاس بھی اپنی حمایت سے پہلے یہ جانچنے کا پیمانہ ہوگا۔
کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں اقلیتوں سے بہت سے وعدے کئے ہیں۔ وہیں نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ ، کسانوں کے لیے ایم ایس پی لاگو کرنے کا وعدہ، اگنی ویر اسکیم ختم کرنے کا وعدہ، غریب خواتین کو سالانہ ایک لاکھ روپے دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ کانگریس نے منشور تیار کرنے کے لیے جو ریسرچ ٹیم تیار کی تھی اس میں کوشش تھی کہ تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہوں۔ سابق وزیر خزانہ اور اور وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اس منشور کمیٹی کی قیادت کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ عوام سے کئے گئے وعدوں پر عمل کرتے وقت رقم کی کمی نہ ہو اور اس کمی کو وعدے پر عمل نہ کرنے کی وجہ قرار نہ دیا جا سکے۔
انتخابی منشور میں فنڈس کا ہم کردار ہوتا ہے اس لئے کانگریس نے اس کمیٹی کی قیادت سابق وزیر خزانہ چدمبرم کو سونپی تھی تاکہ یہ پتہ بنایا جا سکے کہ مطلوبہ اسکیم کے لئے فنڈس کہاں سے لائے جا سکتے ہیں اور ان کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس انتخابی منشور میں 35 لاکھ نوکریوں کی بات کی گئی ہے تو اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کہاں سے نوکریاں آئیں گی اور تقرریاں کس طرح کی جائیں گی؟ ویسے تو سال 2014 میں دو کروڑ نوکریاں دینے، ہر شہری کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے دینے یا تیل کی قیمتوں میں کمی وغیرہ کسی انتخابی منشور کا حصہ نہیں تھے لیکن عوام نے وزیر اعظم کے اس اعلان کو صحیح سمجھتے ہوئے ان کے حق میں ووٹ دیا جو بعد میں محض انتخابات میں دئے گئے جملے ثابت ہوئے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابی منشور کتنا اہم ہوتا ہے!
چونکہ انتخابات میں انتخابی منشور کا اہم کردار ہوتا ہے، تاہم اسی کی بنیاد پر عوام کو اپنا فیصلہ کرنا چاہئے۔ انتخابی منشور ایک اہم دستاویز ہوتا ہے اور زبان سے کئے گئے وعدے زبانی جملے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ کہیں لکھے نہیں جاتے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جن ریاستوں میں کانگریس اقتدار میں آئی اس نے عوام سے کئے گئے وعدوں پر عمل کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام ذات اور مذہب کی بنیاد پر ہی اپنا ووٹ دیتے ہیں اگر عوام میں یہ تبدیلی آ جائے کہ وہ صرف اپنے لئے انتخابی منشوروں میں کئے گئے وعدوں کی بنیاد پر ہی اپنے ووٹ دیں تو یہ فائدہ عوام اور ملک کا ہی ہوگا۔ وقت تبدیل ہو رہا ہے اور عوام بھی اس تبدیلی کے تحت اپنے ووٹ کا استعمال کریں تو ملک کے لئے بہت اچھا ہوگا۔ عوام چاہے خاموش رہے لیکن اسے چاہئے کہ وہ منشور دیکھ کر ہی اپنی رائے کا اظہار کرے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔