کیا اسمرتی ایرانی نے اپنے بیان سے مودی کے خلاف بغاوت کا بگل نہیں بجا دیا؟

ایرانی کو وزیر اعظم کی عمر اور حالیہ لوک سبھا انتخابات میں شکست کا خوب اندازہ ہے، اس لئے انہوں نے یہ چال چلی ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ان کی نظریں مستقبل کی سیاست پر ہیں

<div class="paragraphs"><p>اسمرتی ایرانی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

اسمرتی ایرانی، تصویر آئی اے این ایس

user

سید خرم رضا

اسمرتی ایرانی نے راہل گاندھی کی کیا تعریف کر دی لوگوں نے اور مبصرین نے اس کی گہرائی جاننے کے لئے ڈبکیاں لگانی شروع کر دیں۔ کچھ نے کہا انہوں نے حقیقت پر مبنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ کچھ نے کہا اسمرتی ایرانی نے یہ سب کچھ سنگھ کے کہنے پر کیا ہے۔ کچھ نے کہا کہ ایرانی نے بی جے پی میں کچھ بڑا حاصل کر نے کے لئے اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔ بہرحال لوگوں نے اپنے حساب سے ان کے اس انٹرویو پر رائے کا اظہار کیا ہے۔

لگتا ہے جس طرح اسمرتی ایرانی کو ایک شکست کے بعد بی جے پی میں نظرانداز کیا جا رہا ہے اس کو لے کر انہوں نے اپنی سیاسی اننگ کو اپنی قوت اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ ایرانی کا اس انٹرویو میں غصہ کا اظہار ضرور ہے لیکن بظاہر انہوں نے اپنے غصہ پر پوری طرح قابو رکھا اور اپنی چال سے کئی لوگوں کو چت کر دیا۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ راہل کے عمل کو ہم بچکانہ کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے، راہل گاندھی کی تو تعریف تو کی، ساتھ ہی مودی کے اس جملہ کی قلعی اتار دی جس میں انہوں نے راہل گاندھی کو کہیں نہ کہیں ’بالک بدھی‘ کہا تھا۔ یعنی بی جے پی کے کسی رہنما کی طرف سے یہ مودی پر بڑا حملہ قرار دیا جا سکتا ہے۔


اسمرتی ایرانی کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا دور ختم ہونے جا رہا ہے اور چراغ کی لو ٹمٹمانے لگی ہے۔ ایرانی کو وزیر اعظم کی عمر اور حالیہ لوک سبھا انتخابات میں شکست کا خوب اندازہ ہے، اس لئے انہوں نے یہ چال چلی ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ان کی نظریں مستقبل کی سیاست پر ہیں۔ ان کو یہ معلوم ہے کہ ان کو اپنی پرانی شبیہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ وہ کچھ بھی نہ کہیں اور جو بھی کہیں وہ غصہ میں نہ کہیں بلکہ ٹھہراؤ اور منطق کی بنیاد پر کہیں تاکہ ان کی شبیہ ایک سنجیدہ سیاسی رہنما کی بنے۔

اس سارے معاملے میں ان کو بخوبی اندازہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کنگنا ان کی جگہ لیں گی۔ بی جے پی جس موضوع پر چاہے گی وہ اپنے مطلب کی بات کنگنا رانوت سے کہلوا لے گی اور کنگنا بخوشی بغیر کسی سوال جواب کے بی جے پی کی مرضی کے مطابق بول بھی دیں گی۔ وہ شاید بولتے وقت اس بات کو ذہن میں بھی نہ رکھیں کہ ان کے ذریعہ ادا کیا گیا جملہ ان کی شخصیت اور سیاست کو کتنا نقصان پہنچائے گا۔ ان کی نظر میں ذرائع ابلاغ اور بی جے پی میں جگہ ان کی ترجیح رہے گی جو شاید اسمرتی ایرانی کی بھی رہی ہوگی لیکن ان کو شکست کے بعد اس بات کا خوب اندازہ ہو گیا۔


غصہ میں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شکست کے باوجود کانگریس سے رویندر بٹو کو حکومت میں وزیر بنایا گیا اور کانگریس سے ہی پچھلے کچھ دنوں پہلے آئی کرن چودھری کو راجیہ سبھا کا رکن منتخب کیا گیا یعنی ایرانی کی خدمت پر ان کی ایک ہار نے ایسا پانی پھیرا کہ ان کو بی جے پی میں کسی نے پانی کو بھی نہیں پوچھا!

اس انٹرویو سے یہ بات واضح ہے کہ اسمرتی ایرانی نے نئے انداز سے مستقبل کو نظر میں رکھتے ہوئے حقیقت پر مبنی سیاست کے داؤ پیچ کھیلنے شروع کر دئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے آقا کو بدلنے کی قواید شروع کر دی ہے اور کہیں نہ کہیں بی جے پی کی قیادت کے لئے تیاری شروع کر دی ہے۔ وزیر اعظم کی نیند ایرانی کے اس انٹرویو سے اڑنی ضرور چاہئے کیونکہ وہ حکومت کرنے کے طریقوں سے بہت حد تک واقف ہو گئی ہیں۔ ایرانی کی اس تبدیلی میں خالص ان کی سیاست ہو لیکن ان کی اس تبدیلی میں راہل گاندھی کا ہاتھ بھی ہے کیونکہ انہوں نے ہی کانگریس کے رہنماؤں کو ایرانی کے خلاف بولنے کے لئے منع کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔