ندائے حق: کیا ہندوستان کے بھی مشکل دن آنے والے ہیں؟
’’حالیہ عرصے میں ہندوستانی معیشت پر ملک کی اندرونی صورت حال اور دباؤ کے علاوہ علاقائی اقتصادی و سیاسی بحرانوں کا اثر بھی منفی طور پر مرتب ہوسکتا ہے۔‘‘
یوں تو ہندوستانی معیشت مجموعی طور پر مثبت طریقے سے کام کرتی نظر آ رہی ہے لیکن عالمی مالیاتی اداروں نے اس سال کے لیے ہندوستان کی ترقی کی شرح میں کمی آنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ دراصل جنوبی ایشیا میں حالیہ علاقائی اقتصادی اور سیاسی بحران، جن میں سے زیادہ تر ہندوستان کے قریبی پڑوسی ملک ہیں، وہاں کے حالیہ حالات نے ہندوستانی حکومت اور انتظامیہ میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ ان ملکوں میں سری لنکا، نیپال اور مالدیپ میں معاشی ابتری اور پاکستان میں سیاسی بحران ہندوستان کو کئی طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ مختلف بحرانوں کے معاشی اثرات جلد ہی اپنے آپ کو ظاہر کرنا شروع کر دیں گے، اگر ان ممالک کی حکومتیں ان بحرانوں کو جلد حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ہندوستان کے پڑوسیوں کو ان کی بین الاقوامی سرگرمیوں، پروگراموں اور پروجیکٹوں میں ترجیح دینے پر، نئی دہلی میں 12 اپریل کو منعقد ہونے والی پہلی بین وزارتی رابطہ گروپ (IMCG) میٹنگ منعقد کی گئی اور اس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ ہندوستانی معیشت کو علاقائی معاشی بحرانوں کے منفی اثرات سے کس طرح دور رکھا جاسکتا ہے۔
سری لنکا کی معاشی مشکلات:
سری لنکا میں معاشی بدحالی کو فی الحال سفارتی اور تجارتی اثرات کے ساتھ MEA کے ذریعہ سب سے زیادہ دباؤ والے غیر ملکی چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔گزشتہ برسوں کے دوران سری لنکا کی معیشت بہت زیادہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے یا اپنی برآمدات کو پھیلانے میں ناکام رہی تھی، اور اس کے برعکس ملک میں اعلیٰ متوسط طبقے کی تعداد میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا جو کہ حکومت کی غیر مثبت پالیسیوں کی وجہ پھل پھولنے میں کامیاب رہی۔ زیادہ تر وقت کے لیے، سری لنکا کی ترقی بین الاقوامی خودمختار بانڈز اور مہنگے قلیل مدتی بیرونی قرضوں کے ذریعے برقرار رہی۔ ان فنڈز کو تعلیم، بنیادی ڈھانچے اور صحت کی دیکھ بھال میں خرچ کیا گیا، اس کے علاوہ مالیاتی لیکویڈیٹی کو برقرار رکھنے اور بہتر میکرو اکنامک پالیسی کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں : مہنگائی نے ’مڈ ڈے میل‘ کی تھالی پر بھی ڈالا اثر
تاہم، اپریل 2021 تک، سری لنکا کا بیرونی قرضہ 35 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ مارچ میں، افراط زر 17.5 فیصد تک بڑھ چکی تھی، جو 2015 کے بعد سب سے زیادہ ہے، اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر $1.9 بلین ہو گئے، جو صرف ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
سری لنکا کا غیر ملکی قرض اس کی جی ڈی پی کے تناسب سے خطرناک حد تک 120 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ 12 اپریل کو حکومت نے اپنے تمام بقایا غیر ملکی واجبات کو نادہندہ کردے دیا۔ رواں سال میں سری لنکا کو 4 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے۔ گہری سیاسی اور اقتصادی تباہی کی وجہ سے خوراک اور ایندھن کی درآمد کے لیے سری لنکا کے پاس رقم نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔
اس سب کے باوجود ہندوستان پر کریڈٹ کے سلسلے کے ذریعے سری لنکا کی حمایت جاری رکھنے کے لیے دباؤ دیا جارہا ہے،گو کہ سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پاکسے کی انتظامیہ کے ساتھ سیاسی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ جب کہ سری لنکا میں مظاہرین نے راجا پاکسے کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے،اور عوام نے فوری اقتصادی اصلاحات کے منصوبوں کو آگے بڑھا کر سیاسی اور اقتصادی تبدیلی دونوں کے خلاف مزاحمت ظاہر کی ہے۔
نیپال کی معیشت بھی تباہ ہو رہی ہے:
نیپال کے وزیر خزانہ جناردن شرما نے 16 اپریل کو بیرون ملک مقیم نیپالی شہریوں سے کہا کہ وہ ملکی بینکوں میں فنڈز جمع کرائیں تاکہ مالیاتی نظام میں لچک کو یقینی بنایا جا سکے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ رکھا جا سکے۔ شرما کا کہنا تھا کہ دوسرے ملکوں میں مقیم نیپالیوں کو اپنی بچتیں نیپالی بینکوں میں جمع کرانی چاہئیں جس کے ذریعے نیپالی معیشت کو اور زیادہ مستحکم کیا جاسکے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ رونما ہوسکے۔
اگرچہ شرما نے کہا کہ نیپالی معیشت کو کسی بحران کا سامنا نہیں ہے اور نیپال کی صورت حال کا سری لنکا سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمالیائی مملکت کو دہائیوں میں اپنے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور حکومت مخالف مظاہروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیپال میں، بیرون ملک مقیم کارکنوں کی ترسیلات زر، جو کہ معیشت کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہیں، بیرونی ادائیگیوں کے لیے اہم ہیں، وہ جولائی کے وسط سے مارچ کے وسط کے درمیان 3 فیصد گر کر 5.3 بلین امریکی ڈالر پر آگئی، اس کے مقابلے میں اسی میں 5 فیصد اضافہ ہوا۔
پاکستان کی سیاست:
پاکستان میں سیاسی انتشار نے ہندوستان کی وزارتِ خارجہ میںہلچل مچا رکھی ہے، جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔ ملک کے نئے وزیر اعظم، اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیر اعظم کی طرح، بنیادی طور پر ایک کاروباری ہیں اور وہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دے کر تعلقات کو بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں، جیسا کہ ان کے بھائی نے ماضی میں کوشش کی تھی۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تاجروں کا ایک بڑا حصہ ہندوستان کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات کو دوبارہ کھولنے کے حق میں ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی درآمد کنندگان، خاص طور پر کپاس، ٹیکسٹائل، دواسازی اور کیمیکلز اور خشک میوہ جات اور دستکاری کے برآمد کنندگان سرحد کو ایک بار پھر کھولنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو توقع ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سردمہری کے ماحول میں اور تناؤ میں کچھ کمی آسکتی ہے اور دونوں ملک باہمی طور پر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
کیا چین موردِ الزام ہے؟
حالیہ عرصے میں بہت سے نظریہ سازوں نے چین کے ساتھ سری لنکا کے اقتصادی تعلقات کو بحران کے پیچھے اصل محرک قرار دیا ہے۔ اسے متحدہ ریاستوں نے ''قرض کے جال کی ڈپلومیسی'' کا نام دیا ہے۔ تاہم، حقیقت میں چین کے قرضے 2020 میں سری لنکا کے کل غیر ملکی قرضوں کا صرف 10 فیصد تھے۔ اس کے علاوہ سری لنکا کو چین کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق قرضوں، خاص طور پر ہمبنٹوٹا بندرگاہ کی مالی اعانت کے نادہندگان کو بھی عوامل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
لیکن درحقیقت حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔چینی ایگزم بینک نے ہمبنٹوٹا بندرگاہ کی تعمیر کے لیے مالی اعانت فراہم کی تھی۔ چونکہ یہ بندرگاہ خسارے میں چل رہا تھا،اس لیے سری لنکا کی حکومت نے چینی مرچنٹ گروپ کو 99 سال کے لیے بندرگاہ لیز پر دے دیا، جس کے لیے چینی کمپنی نے سری لنکا کی حکومت کو 1.12 بلین امریکی ڈالر ادا کیے تھے۔ لہٰذا در حقیقت اس معاہدے کے ذریعے سری لنکا کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو 1.12 بلین امریکی ڈالر تک بڑھگئے تھے۔
دراصل سری لنکا کی معاشی صورتِ حال 2019 میں دو اقتصادی جھٹکوں کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی۔ پہلا، اپریل 2019 میں کولمبو میں گرجا گھروں اور لگژری ہوٹلوں میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے۔ ان کی وجہ سے سیاحوں کی آمد میں زبردست کمی واقع ہوئی، جو کہ غیر ملکی کرنسی کمانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ دوسرا، نئی گوتابایا حکومت نے غیر معقول ٹیکس اصلاحات نافذکیں۔ ان ٹیکس کٹوتیوں کی وجہ سے مجموعی گھریلو پیداوار کا تقریباً 2 فیصدحصہ حکومت کو ملنا بند ہوگیا۔ تیسرا، غیر سوچی سمجھی زرعی پالیسیوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں زبردست کمی آئی جس سے مزید درآمدات ضروری ہو گئیں۔ برآمدی آمدنی کم ہونے کی وجہ سے خوراک کی درآمد کے لیے کم رقم دستیاب تھی اور خوراک کی قلت پیدا ہوگئی۔ آخر کار، سری لنکا کو افراط زر کی مالیاتی پالیسی پر عمل کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، جو معاشی بحالی کے امکانات کو مزید محدود کر سکتی ہے۔
اگرچہ ہر ملک کے حالات مختلف معلوم ہوتے ہیں لیکن مستقبل قریب میں ان کا مجموعی اثر ہندوستان پر بھی پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے یہ عسکری اور سیاسی دونوں لحاظ سے احتیاط کا معاملہ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن درحقیقت آنے والا وقت ہندوستانی خارجہ پالیسی مرتب کرنے والوں کے لیے بہت زیادہ صبر آزما ثابت ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ سری لنکا، نیپال، مالدیپ، بھوٹان سبھی ملک ہندوستان کی طرف ایک بڑے ہم سائے کے نظریے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس سے امید کرتے ہیں کہ وہ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے گا۔
دوسری طرف ہندوستان کا غیر ملکی قرضہ اس وقت 139 لاکھ کروڑ ہو چکا ہے جو کہ ایک بہت تشویش ناک بات ہے۔ اگرچہ مجموعی طور پر ہندوستانی معیشت بیرونی طاقتوں کے لیے لچکدار نظر آتی ہے، لیکن کچھ ہندوستانی ریاستوں کے لیے احتیاط کا ایک لفظ بھی ضروری ہے۔ ان میں سے کچھ ریاستوں میں عوام حمایتی پالیسیوں کی وجہ سے مالی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر غیر بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستیں، جیسے کہ پنجاب، آندھرا پردیش اور مغربی بنگال اپنی معیشتوں کو تباہ کر سکتی ہیں، جو وہاں نافذ ہونے والی پاپولسٹ پالیسیوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں۔
لہٰذا، مستقبل قریب میں ہندوستانی حکومت کو بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کی مالی پریشانیوں سے نمٹنا پڑ سکتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز، دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔