’سیبی کی چیئرپرسن اور ان کے شوہر نے عوام کو گمراہ کیا، اڈانی گھوٹالہ کی تحقیقات کے لیے جے پی سی کا قیام ناگزیر‘

کانگریس جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا کہ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اڈانی گھوٹالے اور سیبی کے کام کاج کی تحقیقات کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے

<div class="paragraphs"><p>جئے رام رمیش / آئی اے این ایس</p></div>

جئے رام رمیش / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس نے اڈانی گروپ کے خلاف اٹھائے گئے مختلف معاملات کی جے پی سی تحقیقات کے اپنے مطالبے کو دہرایا ہے۔ پارٹی لیڈر جئے رام رمیش نے تحقیقات میں چیئرپرسن مادھبی پوری بوچ پر تعصب کا بھی الزام لگایا ہے۔ رمیش نے منگل کو ایکس پر لکھا، ’’سیبی کی چیئرپرسن مادھبی پوری بوچ کی ممکنہ بدانتظامی بدعنوانی پر مزید سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘

کانگریس لیڈر نے کہا، ’’سیبی کی چیئرپرسن کے طور پر ان کی تقرری سے قبل ان کی طرف سے قائم کردہ ایک کنسلٹنگ کمپنی کی ریگولیٹری فائلنگ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کمپنی اور اس کا قانونی آڈیٹر ایک ہی پتہ پر رجسٹرڈ ہیں۔ حالانکہ، انہوں نے اس کنسلٹنگ کمپنی کا ڈائریکٹر کا عہدہ چھوڑ دیا لیکن سیبی چیئرپرسن کے شوہر 2019 سے اس فرم کے ڈائریکٹر ہیں۔‘‘


انہوں نے کہا، ’’ایک کمپنی اور اس کے آڈیٹر کا ایک ہی ایڈریس کا اشتراک عام طور پر خراب کارپوریٹ گورننس کی علامت ہے۔ آئی سی اے آئی کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق قانونی اکاؤنٹنٹس کو جانبداری، مفادات کے تصادم یا غیر ضروری اثر و رسوخ سے گریز کرنا چاہیے۔ ایک ہی مقام کا اشتراک اس طرح کے تعصب کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘

رمیش نے مزید کہا، ’’SEBI کی چیئرپرسن اور ان کے شوہر نے یہ دعویٰ کر کے عوام کو گمراہ کیا کہ کنسلٹنگ کمپنی سیبی میں ان کی تقرری کے فوراً بعد غیر فعال ہو گئی، جبکہ یہ درست نہیں ہے۔ 2019 اور 2024 کے درمیان کمپنی کو 3.63 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی، سب سے زیادہ آمدنی 2019 سے 2022 کے درمیان ہوئی اور یہ وہ وقت تھا جب بوچ سیبی کی کل وقتی رکن تھیں۔ مارچ 2022 میں سیبی کی سربراہ کے طور پر اپنی تقرری کے بعد کمپنی نے تقریباً 41.75 لاکھ روپے کمائے۔‘‘

کانگریس جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا کہ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اڈانی گھوٹالے اور سیبی کے کام کاج کی تحقیقات کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔