پی ایم مودی کنیاکماری میں 45 گھنٹے کے مراقبہ کے دوران چھٹی پر تھے یا آن ڈیوٹی؟ جانیں وزیر اعظم دفتر نے کیا دیا جواب
اصول کے مطابق جب کوئی وزیر اعظم چھٹی پر جاتے ہیں تو وہ اپنی ذمہ داری کسی سینئر وزیر کو سونپتے ہیں تاکہ کام کسی طرح سے متاثر نہ ہو۔
بی جے پی لیڈران و کارکنان اور مودی حکومت کے وزراء ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی نے اب تک ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لی ہے۔ ہمیشہ وہ ملک کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) سے اس بارے میں ریکارڈ بھی طلب کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن کیا پی ایم مودی جب کسی انتخابی تشہیر میں ہوتے ہیں، یا دھیان (مراقبہ) لگا رہے ہوتے ہیں تب بھی وہ ڈیوٹی پر رہتے ہیں؟ گزشتہ انتخاب کی طرح پی ایم مودی اس بار بھی لوک سبھا انتخاب ختم ہونے کے بعد جب 45 گھنٹے کے لیے کنیاکماری میں مراقبہ کے لیے گئے، تو سبھی کے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ اسے ان کی چھٹی تصور کیا جائے یا پھر وہ آن ڈیوٹی تھے؟
دنیا بھر میں خبروں کی دنیا کے معتبر نام بی بی سی نے لوگوں کے ذہن میں اٹھ رہے مذکورہ سوال کا جواب پی ایم او سے جاننے کی کوشش کی۔ بی بی سی نے پوچھا کہ کیا 45 گھنٹے کنیاکماری میں مراقبہ کے دوران بھی پی ایم مودی آن ڈیوٹی تھے؟ اس پر پی ایم او کی طرف سے جو جواب آیا وہ شاید کئی لوگوں کو درست نہ لگے۔ دراصل پی ایم او نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی مدت کار میں ایک بھی دن کی چھٹی نہیں لی ہے۔ بھلے ہی پی ایم مودی نے اب تک کوئی چھٹی نہیں لی ہو، لیکن ملک کے کئی وزیر اعظم ہیں جنھوں نے چھٹی لی ہے اور اس کی جانکاری عوامی طور پر بھی دی ہے۔ اس فہرست میں جواہر لال نہرو، راجیو گاندھی اور اٹل بہاری واجپئی کا نام شامل ہے۔ حالانکہ مراقبہ کے دوران کوئی کس طرح ڈیوٹی پر رہ سکتا ہے، اس سلسلے میں لوگ سوال ضرور کر رہے ہیں۔
اصولاً جب کوئی وزیر اعظم چھٹی لیتے ہیں تو وہ اپنی ذمہ داری اپنے کسی سینئر وزیر کو سونپ کر جاتے ہیں تاکہ کوئی کام متاثر نہ ہونے پائے۔ ویسے وزیر اعظم مودی کے کنیاکماری دورہ کو لے کر ایسی کوئی جانکاری سامنے نہیں آئی ہے کہ انھوں نے پی ایم او کو اس بارے میں کچھ بتایا تھا یا نہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پی ایم مودی کے مراقبہ کی خبر میڈیا میں خوب چلی تھی۔ ایسے میں پی ایم او کے ذریعہ مراقبہ کو ڈیوٹی بتائے جانے والی بات لوگ ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ مراقبہ ذاتی کام ہے، اسے ڈیوٹی کا حصہ نہیں مانا جا سکتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔