سپریم کورٹ میں آج سماعت، کیا اروند کیجریوال تہاڑ جیل سے باہر آئیں گے؟
5 اگست کو دہلی ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی کارروائیوں میں کوئی بدنیتی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ آج دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی درخواست پر سماعت کرے گی جس میں مبینہ ایکسائز پالیسی گھوٹالہ سے متعلق بدعنوانی کے معاملے میں سی بی آئی کے ذریعہ ان کی گرفتاری کو برقرار رکھنے کے دہلی ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ اس معاملے میں کیجریوال کی ضمانت کی درخواست پر بھی الگ سے سماعت کرے گی۔ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس اجل بھویان کی بنچ عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کنوینر کی دونوں درخواستوں پر سماعت کرے گی۔
جب اروند کیجریوال کی جانب سے سینئر وکیل ابھیشیک سنگھوی نے پیریعنی 13 اگست کو فوری طور پر فہرست میں شامل کرنے کی درخواست کی تو سپریم کورٹ نے ان کی درخواست پر سماعت کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
دہلی ہائی کورٹ نے 5 اگست کو وزیر اعلی ٰکی گرفتاری کو قانونی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ مرکزی تفتیشی بیورو یعنی سی بی آئی کی کارروائیوں میں کوئی بدنیتی نہیں ہے، اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ عام آدمی پارٹی کے رہنما کس طرح گواہوں کو متاثر کر سکتے ہیں جو صرف گواہی دینے کی ہمت کر سکتے ہیں۔ ان کی گرفتاری کے بعدہائی کورٹ نے انہیں سی بی آئی کیس میں باقاعدہ ضمانت کے لیے نچلی عدالت سے رجوع کرنے کو کہا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ کی گرفتاری اور سی بی آئی کی طرف سے متعلقہ شواہد اکٹھے کرنے کے بعد ان کے خلاف ثبوتوں کا سلسلہ بند ہو گیا ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بغیر کسی معقول وجہ یا غیر قانونی تھا۔
کہا گیا کہ کیجریوال کوئی عام شہری نہیں بلکہ میگسیسے ایوارڈ یافتہ اور عام آدمی پارٹی کے کنوینر ہیں۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا، "گواہوں پر اس کا کنٹرول اور اثر و رسوخ اس حقیقت سے واضح ہے کہ یہ گواہ درخواست گزار کی گرفتاری کے بعد ہی گواہ بننے کی ہمت پیدا کر سکتے ہیں، جیسا کہ اسپیشل پراسیکیوٹر نے بے نقاب کیا ہے۔"
ہائی کورٹ نے کجریوال کی گرفتاری کو چیلنج کرنے والی عرضی کو مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ایجنسی ان کے خلاف مزید تحقیقات کو آگے بڑھائے گی جب کافی ثبوت اکٹھے کیے جائیں گے اور اپریل 2024 میں منظوری دی جائے گی۔عدالت نے کہا تھا کہ جرائم کی ڈور پنجاب تک پھیلی ہوئی ہے، لیکن کیجریوال کی پوزیشن اور ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے گواہ سامنے نہیں آرہے ہیں۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ان کی گرفتاری کے بعد ہی گواہ اپنے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے آگے آئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔