گوگل انڈیا نے 400 سے زیادہ ملازمین کو کمپنی سے نکالا، متاثرین نے لنکڈاِن پر بیان کیا اپنا درد

بے ترتیب چھنٹنی کے الزامات سے انکار کرتے ہوئے الفابیٹ اور گوگل سی ای او سندر پچائی نے پہلے کہا تھا کہ انھیں ورک فورس کم کرنے کے لیے بہت افسوس ہے۔

<div class="paragraphs"><p>گوگل، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

گوگل، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

دنیا کے ساتھ ہندوستان میں بھی معاشی بحران جیسے حالات کے درمیان اب گوگل انڈیا نے 400 سے زیادہ ملازمین کو کمپنی سے برخواست کر دیا ہے۔ ان میں سے کئی متاثرہ ملازمین نے اپنا درد لنکڈاِن پر بیان کیا ہے۔ اس چھنٹنی نے کمپنی میں عالمی سطح پر 12000 ملازمین کو متاثر کیا ہے۔

’دی ہندو بزنس لائن‘ نے سب سے پہلے 16 فروری کو ہوئی گوگل انڈیا میں چھنٹنی کے بارے میں رپورٹ کی تھی۔ دراصل ہندوستان میں یہ چھنٹنی عالمی سطح پر گوگل میں بڑے پیمانے پر ملازمت تخفیف کے فیصلے کا حصہ تھی، جس نے کمپنی میں عالمی سطح پر 12000 ملازمین کو بے روزگار کر دیا ہے۔


گوگل کے گروگرام دفتر میں ایک اکاؤنٹ منیجر کمل دَوے نے لنکڈاِن پر اپنا درد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’میں بھی کل گوگل انڈیا میں چھنٹنی کا شکار بنا۔ گوگل میں میں اکاؤنٹ منیجر/کنسلٹنٹ کی شکل میں کام کر رہا تھا۔ کئی صنعتوں کے لیے ڈیجیٹل مارکیٹنگ اہداف کو پورا کرنا میرے کام کا فوکس تھا۔‘‘ دَوے نے مزید لکھا ہے کہ ’’میں ایک نئے کردار کی تلاش کر رہا ہوں اور آپ کی حمایت کی تعریف کروں گا۔ کسی بھی رابطہ، صلاح یا مواقع کے لیے پیشگی شکریہ۔‘‘

چھنٹنی سے بچے گوگل انڈیا کے ایک ملازم کا کہنا ہے کہ ’’انھیں (ساتھیوں کو) اس سے گزرتے ہوئےد یکھنا واقعی میں مشکل بھرا ہے۔‘‘ ملازم نے مزید کہا کہ ’’یہ اور بھی مشکل ہے کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ ان سے کس طرح بات کریں اور کیا کہیں۔‘‘ اسی طرح سے کئی ملازمین نے لنکڈاِن اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنا درد ظاہر کیا ہے۔


واضح رہے کہ اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہ چھنٹنی ’بے ترتیب ڈھنگ‘ سے کی گئی ہے، الفابیٹ اور گوگل کے سی ای او سندر پچائی نے پہلے کہا تھا کہ انھیں وَرک فورس کو کم کرنے کے لیے بہت افسوس ہے۔ پچائی نے ملازمین کو ایک ای میل میں کہا کہ وہ ان فیصلوں کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں جو ہمیں یہاں تک لے آئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔