’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ سیریز کی 12ویں قسط میں کانگریس نے مودی حکومت سے پھر پوچھے 3 تلخ سوالات
آج کے سوالات پبلک ادارہ انڈین آئل کارپوریشن کے ذریعہ اڈانی کی ملکیت والے گنگاورم بندرگاہ میں لیکوئڈ پٹرولیم گیس (ایل پی جی) ٹرمینل کا استعمال کرنے کے لیے کیے گئے متنازعہ معاہدہ سے متعلق ہیں۔‘‘
کانگریس کے سینئر لیڈر جئے رام رمیش گزشتہ کچھ دنوں سے ’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ سیریز کے ذریعہ مودی حکومت کو لگاتار کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ آج پھر اس سیریز کے تحت 12ویں قسط کے سوالات پی ایم مودی اور ان کی حکومت کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ جئے رام رمیش نے جاری بیان میں لکھا ہے کہ ’’محترم وزیر اعظم مودی جی، جیسا کہ وعدہ کی اتھا، آپ کے لیے آج کا تین سوالوں کا سیٹ پیش ہے۔ ہم اڈانی کے ہیں کون سیریز کی بارہویں قسط۔‘‘
اس کے بعد جئے رام رمیش لکھتے ہیں ’’11 فروری 2023 کو ہم نے بندرگاہ سیکٹر میں اڈانی گروپ کی بالادستی کو آسان بنانے میں آپ کے کردار پر سوال اٹھایا تھا۔ آج کے سوالات پبلک ادارہ انڈین آئل کارپوریشن (آئی او سی) کے ذریعہ اڈانی کی ملکیت والے گنگاورم بندرگاہ میں لیکوئڈ پٹرولیم گیس (ایل پی جی) ٹرمینل کا استعمال کرنے کے لیے کیے گئے متنازعہ معاہدہ سے متعلق ہیں۔‘‘ پھر کانگریس لیڈر جئے رام رمیش یہ تین سوالات پوچھتے ہیں:
پہلا سوال:
اب یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ آپ نے اڈانی کو بندرگاہوں کے کاروبار کی توسیع کرنے میں مدد کرنے کے لیے آپ کے حلقہ اختیار میں دستیاب سبھی وسائل کا استعمال کیا ہے، چاہے وہ بغیر بولی کے عمل کو اپنائے بندرگاہ رعایتیں دینا ہو یا کاروباری گروپوں پر انکم ٹیکس کے چھاپے ڈلوا کر انھیں اپنی بیش قیمتی ملکیتیں اڈانی کو فروخت کرنے کے لیے مجبور کرنا ہو۔ سوال ہے کہ آپ قصداً پبلک سیکٹر کو کمزور کیوں کر رہے ہیں، جنھیں ہندوستان کے شہریوں کے مفاد میں آپریٹ کرنے کی ذمہ داری آپ کی حکومت پر ہے؟
آپ کی حکومت نے مہاراشٹر میں دیگھی بندرگاہ کے لیے جواہر لال نہرو پورٹ ٹرسٹ کے ذریعہ 2021 کی بولی کو پہلے ہی روک دیا تھا، جو بالآخر اڈانی کی جھولی میں چلا گیا۔ اب ہمیں پتہ چلا ہے کہ آئی او سی (انڈین آئل کارپوریشن)، جو پہلے حکومت کے ذریعہ آپریٹ وشاکھاپتنم بندرگاہ کے ذریعہ سے ایل پی جی کی درآمدات کر رہی تھی، کو اب اس کی جگہ پڑوس کے گنگاورم بندرگاہ کا استعمال کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے اور وہ بھی ’فراہمی لو یا ادائیگی کرو‘ جیسے ایک مشکل معاہدہ کی بنیاد پر۔ کیا آپ ہندوستان کے پبلک سیکٹر کو صرف اپنے متروں کو مزید خوشحال بنانے کی شئے کی شکل میں دیکھتے ہیں؟
دوسرا سوال:
آئی او سی نے واضح کیا ہے کہ اس نے اڈانی پورٹس کے ساتھ صرف ایک ’غیر رخنہ انداز معاہدہ نوٹس‘ پر دستخط کیے ہیں اور ’ابھی تک‘ کسی ’فراہمی لو یا ادائیگی کرو‘ جیسے مشکل معاہدہ پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ کیا اڈانی پورٹس نے انجانے میں اس کھیل کو آخری شکل دینے سے پہلے اس کا انکشاف کر دیا تھا؟ کیا ایسے معاہدہ نوٹس پر دستخط واضح طور سے اس سمت کا اشارہ نہیں دے رہے ہیں، جس میں آئی او سی کو دھکیلا جا رہا ہے؟ کیا یہ بات کہ ’فراہمی لو یا ادائیگی کرو‘ معاہدہ پر دستخط ہونے ہی والے تھے، اس حقیقت کو ظاہر نہیں کرتے ہیں کہ اڈانی کی بندرگاہ کو ایل پی جی کی درآمدات کے لیے اہم بندرگاہ بنایا جا رہا تھا، نہ کہ دیگر ایسی کئی بندرگاہوں میں سے ایک، جیسا کہ آئی او سی نے کہا ہے؟
تیسرا سوال:
آئی او سی میں سرکاری ادارہ ایل آئی سی 9400 کروڑ روپے کی قیمت کی 8.3 فیصد حصہ داری کے ساتھ ایک اہم شیئر ہولڈر ہے، اور اڈانی پورٹس اور ایس ای زیڈ میں یہ 1130 کروڑ روپے کی قیمت کی 9.1 فیصد حصہ داری کے ساتھ ایک اہم شیئر ہولڈر بھی ہے۔ سرکاری شیئر ہولڈرس کے ذریعہ مقرر پیمانوں کے مطابق وسیع جانچ (ڈیو ڈیلیجنس) ندارد کیوں ہے؟ آئی او سی شیئر ہولڈرس کے مفادات کے تحفظ کی نگرانی کون کر رہا ہے؟ یا یہ لوٹ آپ کے لبرل نظر اور بندھے ہاتھوں کی وجہ سے جاری ہے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔