ندائے حق: ہماری مساجد کیسی ہونی چاہئیں!...اسد مرزا
موجودہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی مسجدوں کو دین کے علاوہ سماجی و تعلیمی مرکز کے طور پر اپنی زندگی میں شامل کریں۔
اسلام میں مسجد انسان کے لئے روئے زمین پر ایک ایسا مقدس مقام ہے جہاں وہ عبادت کرسکتا ہے۔ مسجد ایک عربی لفظ ہے جس کا مطلب سجدہ کا مقام ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ دن میں 5 وقت اور جمعہ کے علاوہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کو مقامی یا شہر کی مسجد میں جمع ہوں۔ اس کو سماجی رابطوں اور اجتماعات کے لئے بھی ایک مقام کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے مسجد کو ایک ایسے مقام پر ہونا چاہیے جہاں سب کو رسائی حاصل کرنے میں آسانی ہو۔ بستی میں ایک ایسے مقام پر تعمیر کی جائے کہ اندرونی طور پر سب کو قریب رکھے اور اور بیرونی دنیا سے بھی اس کا رابطہ قائم رہے۔ تاہم مسلمانوں کو خاص طور سے ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مقامی مسجد کو ایک ایسے مرکز میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جہاں برادری سے متعلق مختلف مسائل پر غوروخوض کرنے کے علاوہ علاقائی مسائل کو بھی سامنے لایا جاسکے اور اس کے آسان حل نکالنے کی کوشش کی جائے۔ اس سے مذہبی مقامات پر دیگر عقائد کے لوگوں کے داخلے پر پابندی کے لئے کٹرپسندوں کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کا بھی جواب دینے میں مدد ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں : ندائے حق: ہند - بحرالکاہل نئے امکانات...اسد مرزا
مساجد کی آرکٹکچرل ترقی
تعمیر کے اعتبار سے ایک مسجد میں 4 اہم عناصر ہوتے ہیں جن میں نماز کا ہال، ایک محراب جو قبلہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک مینار جو اذان دینے کے لئے ہوتی ہے اور ایک حوض جہاں وضو کیا جاتا ہے۔ مسجد کا رخ جانب کعبۃ اللہ ہوتا ہے اور اسی کو قبلہ کہیتے ہیں جس طرف مسلمان پانچ وقت اپنا منہ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔
عرب طرز کی مساجد ابتدائی دور کی مساجد ہیں جو امیہ اور عباسیہ کے دورخلافت میں تعمیر کی گئیں۔ یہ مساجد مربع شکل کی یا مستطیل شکل کی ہوتی تھیں۔ اور ان کے ساتھ صحن بھی ہوتا تھا۔ نماز کے ہال پر چھت ہوتی تھی۔ تاریخی طور پر مشرق وسطی اور بحرہ روم کے علاقوں میں گرم موسم کے دوران صحن کو بھی عبادت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جہاں جمعہ کی نماز کے وقت بڑی تعداد میں آنے والے لوگ عبادت کرتے تھے۔ تاہم عرب منصوبہ میں سادگی کی وجہ سے مزید تعمیراتی اختراع کے لئے مواقع محدود ہوگئے تھے۔
فارسیوں (ایرانیوں) نے سب سے پہلے عرب طرز تعمیر سے کنارہ کشی اختیار کی۔ انہوں نے اپنی مساجد کے طرز تعمیر میں پارتھیائی اور ساسانی طرز کو استعمال کرنا شروع کیا چنانچہ اسلامی طرز تعمیر میں اس طرح کی مسجدوں میں گنبد، دروں اور محرابوں کا اضافہ دیکھا گیا، جسے ایوان بھی کہا جاتا ہے۔
سلجوق حکمرانوں کے دور میں 4 ایوانوں کا اہتمام شروع کیا گیا۔ اس طرز تعمیرمیں صحن کے کنارے مسجد ہوتی تھی اور صحن میں داخلہ کے لئے چاروں طرف دروازے نصب کیے جاتے تھے تاکہ مختلف سمتوں سے آنے والے مقتدی مسجد میں آسانی سے رسائی پاسکیں۔ فارسیوں نے مسجد کے ڈیزائن میں باغات کا اضافہ متعارف کرایا۔ جلد ہی دنیا بھر میں فارسی طرز کی مساجد کی تعمیر میں اؔضافہ ہوا۔ بعد میں تیمور اور مغل حکمرانوں نے اسی طرز کی مساجد تعمیر کروائیں۔
سلطنت عثمانیہ نے 15 ویں صدی میں مسجد کے وسط میں مرکزی گنبد کو متعارف کروایا۔ ان مساجد میں عبادت کے ہال کے اوپر مرکز میں ایک بڑا گنبد ہوتا تھا۔ ایک بڑے مرکزی گنبد کے اضافہ کے علاوہ چھوٹے گنبدوں کی موجودگی بھی تعمیرات میں شامل کی گئی۔ مسجد کے بقیہ حصہ میں ان گنبدوں کو تعمیر کیا جاتا تھا جہاں عبادت نہیں ہوتی تھی۔ اس طرز تعمیرنے بازنطین مہمانوں کو کافی متاثر کیا جو اپنی تعمیرات میں بڑے مرکزی گنبدوں کا استعمال کرتے تھے۔ نئی دہلی کے مالویہ نگر کی کھڑکی مسجد کی تعمیر میں 81 سے زیادہ گنبد موجود ہیں۔
جنوب مشرقی ایشیاء میں مساجد کی تعمیر عام طور انڈونیشیا کے جاوا کے طرز تعمیر کی عکاسی کرتی ہے جو عظیم تر مشرق وسطی میں پائی جانے والی مساجد سے قدرے مختلف ہیں۔ اسی طرح یوروپ اور شمالی امریکہ میں بھی مساجد کی تعمیر مغربی طرز کی جھلک پیش کرتی ہے۔ چند مساجد قدیم گرجا گھر یا دیگر عمارتوں میں بھی قائم کی گئی ہیں جو پہلے غیرمسلموں کے زیراستعمال ہوا کرتی تھیں۔ افریقہ میں زیادہ تر مساجد قدیم طرزِ تعمیر پر بنائی گئی تھیں۔ تاہم نئی مساجد کو مشرق وسطی کے طرز تعمیر پر ہی بنایا جا رہا ہے۔
تاریخی طور پر ہندوستان میں متعدد مساجد کی تعمیر مغل دور میں کئی گئی تاہم حالیہ عرصے میں زیاہ دتر مساجد سادہ طرز تعمیر پر تیار کی گئی ہیں۔ جب سے بیرون ملک ملازمت کرنے والے تارکین وطن کی جانب سے عطیات کا سلسلہ شروع ہوا تب سے ہندوستان میں مساجد کی تعمیر متمول ہوگئی۔ ہر مسجد کی تعمیر دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مسجد کی تعمیر اس علاقے یا کسی ایک شخص کی انفرادی فکر کی عکاسی کرتی ہے۔
ایک اختراعی مسجد
گجرات کے آرکٹکٹ قطب منڈوی والا نے مسجد کی ڈیزائن کا ایک نیا رجحان شروع کیا ہے۔ 2018 میں پہلی مرتبہ انہوں نے کانپور کے جارج مئو میں گلشن ہاؤزنگ سوسائٹی کے لئے گلستان مسجد کا نقشہ تیار کیا۔ یہ مسجد صرف 250 مربع میٹر کے رقبہ پر انتہائی گنجان آبادی میں تعمیر کی گئی ہے۔ اس مسجد کو ایک منصوبہ بند پراجکٹ کے طور پر تعمیر کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ مسجد کے انتہائی سادہ اور غیرمعمولی ڈیزائن نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے۔ مسجد کے دونوں طرف سڑکیں ہیں اور اس کے دو باب الداخلہ ہیں۔ ایک بڑا دروازہ بیرونی سڑک پرکھلتا ہے جب کہ دوسرا دروازہ بستی کے اندر کھلتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کے لیے علاقائی طور پر دستیاب تعمیراتی وسائل کو استعمال کیا گیا ہے۔
اس مسجد کی منصوبہ بندی حقیقی دنیا کے مختلف عقائد اور علامتوں کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ہے۔ اصل عمارت کے اطراف مختصر صحن ہے۔ جسے گزرگاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہاں وضو خانے اور لوگوں کے لئے چپل رکھنے کی جگہ بنائی گئی ہے۔ مسجد کی اصل عمارت ایک مثلث کی شکل کی ہے جو عبادت کے وقت سجدے کی حالت میں معلوم ہوتی ہے۔ بیرونی ڈیزائن انتہائی سادہ ہے اور صحن کو پودوں سے سجایا گیا ہے۔ باہر کی سمت میں مینار کے اطراف ایک حوض بھی ہے۔ مسجد کے اگلے حصہ کو جالی سے ڈھکا گیا ہے جو مغل طرز کی یاد دلاتی ہے۔ اس جالی کو قدرتی ہوا اور روشنی کے لئے لگایا گیا ہے۔ اس جالی کی وجہ سے جہاں قدرتی روشنی اور ہوا اندر آنے سے ماحول پاک و صاف ہو جاتا ہے وہیں اندر کی گرم ہوا بھی باہر آسانی سے نکل جاتی ہے۔
ایک مثالی مسجد
تاہم اس وقت جدید اور مختلف طرز تعمیر کی مساجد تیار کرنے کے علاوہ ہمیں ایک ایسی مسجد کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیے جو برادری کے لئے بامقصد ہو۔ ہم اس بحث کو اس طرح سے آگے لے جاسکتے ہیں کہ ایک مسجد کو مسلمانوں کا کمیونٹی ریسورس سنٹر (سی آر سی ) ہونا چاہیے جہاں مسلمانوں کی آبادی موجود ہے وہاں ان مسجد / سی آر سی کو ایک ایسے مقام کے طور پر تعمیر کرنا چاہیے، جہاں مسلمان نہ صرف اپنی مذہبی ضرورتوں کے لئے بلکہ سماجی ضرورت کے لئے جمع ہوسکیں۔ مسجد میں لائبریری، کیریر کونسلنگ سنٹر بھی ہونا چاہیے، جہاں مختلف شعبوں کے ماہرین کے ذریعہ نوجوانوں کو ان کی تعلیم اور کیریر کے انتخاب کے سلسلہ میں رہنمائی کی جاسکے۔ یہاں مسائل پر تبادلہ خیال کے لئے بھی ایک مقام ہونا چاہیے جو بستی کے غریب اور بیمار افراد پر نظر رکھ سکیں اور انہیں راحت فراہم کرسکیں۔ مسجد میں ایک ایسا کمرہ بھی ہونا چاہیے جہاں میتوں کے غسل اور کفن کا بھی انتظام کیا جاسکے۔
ہمیں مقامی مساجد کو ایک ایسے مقام کے طور پر تعمیرکرنا چاہیے جو نہ صرف طرز تعمیر کے لحاظ سے بہتر ہو بلکہ تعمیر پر زیادہ خرچ بھی نہ آئے۔ مسجد کو ہمہ مقصدی مراکز میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی برادری کسی نہ کسی موقع سے اس کا رخ کرسکے اور اپنی مذہبی و دیگر ضروریات کی تکمیل کرسکے۔ یہ اقدام چند یوروپی ممالک میں کچھ وقت پہلے شروع کیا گیا تھا۔ اب ہندوستان میں بھی اس طرح کی مساجد دیکھی جارہی ہیں۔ ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ مقامی غیرمسلموں کو مسجد آنے کی دعوت دی جائے تاکہ وہ وہاں آکر مسلمانوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھ سکیں اور مقدس قرآن مجید کی تعلیمات سے مستفید ہوسکیں۔ ایک ایسا ماحول تعمیر کرنے کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے جس سے غیرمسلموں میں مسلمانوں کے تعلق سے اعتماد اور بھی مضبوط ہوسکیں اور مختلف عقائد کے لوگوں کے درمیان بات چیت کا موقع فراہم کراسکے جو کہ ملک کے موجودہ حالات میں سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔