ندائے حق: ہند - بحرالکاہل نئے امکانات...اسد مرزا
ہند-بحرالکاہل اتحاد کے ذریعہ ہندوستان چین کا سامنا کرنے کے ساتھ ہی اس کے ذریعے اپنے لیے نئے تجارتی اور دفاعی فوائد حاصل کرسکتا ہے۔
گزشتہ ایک سال کے عرصے میں اگرچہ دنیا کے بیش تر ممالک اپنی زیادہ تر توانائی اور وسائل کووڈ وبا سے نمٹنے کے لیے مرکوز کیے ہوئے تھے، تاہم دوسری جانب وہ اپنی ملک کی معاشی ترجیحات اور دفاعی مقاصد کے حصول کے لیے دنیا کی شیرازہ بندی کرنے میں بھی مصروف رہے۔
یہ بھی پڑھیں : جرمنی میں ساڑھے چھ ملین انسانوں کی داخلی نقل مکانی
ایک علاقہ جو اس نئی شیرازہ بندی میں ابھرکر سامنے آیا ہے وہ ہے ہند- بحرالکاہل کا علاقہ۔ یہ علاقہ بحر ہند، مغربی اور وسطی بحرالکاہل اور انڈونیشیا کے آس پاس موجود سمندروں کے علاقے پر مشتمل ہے۔ ہند- بحرالکاہل اصطلاح 2011 کے بعد سے عالمی منظر نامے پر اپنی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔ بعض دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ جب کواڈ کا نام نہیں لینا چاہتا تب وہ لفظ ہند-بحرالکاہل کا استعمال کرتا ہے۔ واضح رہے کہ ’’کواڈ‘‘ آسٹریلیا، جاپان، امریکہ اور ہندوستان پر مشتمل ایک علاقائی دفاعی تنظیم ہے۔
تاریخی طور پر ہند- بحرالکاہل لفظ کا استعمال پہلی مرتبہ جرمنی کے سیاست داں اور اکابر کارل ہوشوفر نے 1920ء میں اپنے ریسرچ پیپر "Indopazifischen Raum" میں کیا تھا۔ لیکن اس کا سلامتی سے متعلق پہلو 2000ء میں واضح ہوا جب مبصرین نے ہند-بحرالکاہل کے خطہ کی سلامتی ودفاعی حیثیت کو محسوس کرنا شروع کیا۔ اس پس منظر میں اس اصطلاح کا استعمال پہلی مرتبہ گروپریت کھرانا نے اپنے مضمون میں کیا جو 2007 میں ’’اسٹریٹجک انالائسس‘‘ نامی رسالہ میں’’ سمندری خطوط کی سلامتی، ہند-جاپان تعاون کے لئے اہمیت کی حامل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ مضمون نگار نے ہند-بحرالکاہل کا حوالہ مشرقی افریقہ اور مغربی ایشیاء کے سمندری حدود کے لحاظ سے کیا جو بحرہند اور مغربی بحرالکاہل پر مشتمل ہے اور مشرقی ایشیا بھی اس میں شامل ہے۔ جاپان کے وزیراعظم شینزوابے نے 2007 میں ہندوستانی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں اس اصطلاح کا استعمال کیا تھا جب انہوں نے ہندوستان اور بحرالکاہل کے درمیان روابط کے بارے میں بات کی۔
دوسری جانب ’’کواڈ‘‘ لفظ کا استعمال پہلی مرتبہ 2004ء میں رونما ہونے والی ’سونامی‘ کے بعد راحت رسانی کے کاموں کے لیے کیا گیا۔ بعد میں ڈک چینی نے اسے فوجی اصطلاح کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، تاکہ چین کے اثرات کا مؤثر طریقے سے جواب دیا جاسکے۔ 2010ء میں اسے اس وقت ترک کردیا گیا جب ہندوستان اور آسٹریلیا چین کے خلاف پابندیاں عائد کرنا نہیں چاہتے تھے، کیونکہ دونوں کو خوف تھا کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کا منفی اثر چین کے ساتھ ان کے تجارتی روابط اور درآمدات و برآمدات پر بھی پڑسکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے 2017ء میں اس علاقائی گروپ کا احیاء کرنے کی کوشش کی، کیونکہ چین جنوبی چینی سمندر کے علاقے میں مسلسل جاپان اور امریکہ کے لئے ایک چیلنج بنتا جا رہا تھا اور اس علاقے میں واقع چھوٹے جزیروں پر ان کی دفاعی اہمیت کی وجہ سے اپنی بالادستی ثابت کرنا چاہتا تھا۔
ٹرمپ کی زیر قیادت امریکہ کواڈ کو ایشیائی ناٹو کی شکل دینا چاہتا تھا تاکہ چین کی طرف سے بار بار پیدا ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکے۔ کواڈ کی اہمیت اس امر سے بھی لگائی جاسکتی ہے کہ حالیہ عرصے میں برطانیہ اور فرانس نے بھی اس اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے جہاں ایک طرف وہ چین کے خلاف ہونے والی کسی بھی کارروائی میں شامل ہوسکتے ہیں، وہیں دوسری جانب وہ اس کے ذریعے ہندوستان کے ساتھ اپنے تجارتی اور دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب بائیڈن انتظامیہ اس کے ذریعہ تجارت، امیگریشن، صحت عامہ، ماحولیاتی تبدیلی پر اپنے موقف کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ چین کے خلاف اپنی حکمت عملی کی بھی نشاندہی کر رہا ہے۔ اور ساتھ ہی اس کے سلامتی کے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس اتحاد کو مزید طاقتور بنانے کے لئے کواڈ کے قائدین نے ورچول سمٹ کے ذریعہ 12 مارچ 2021 کو ملاقات کی۔ اس کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں گروپ کے قیام اور اس کے ایجنڈہ کو دوبارہ واضح کیا گیا۔ اجلاس کے بعد وہائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی مشیر جیک سلیوان نے واضح کیا کہ گروپ کے چاروں قائدین نے اس اجلاس کو تاریخی اور اہم قرار دیا ہے۔
کواڈ بات چیت 2019ء میں وزارت سطح پر شروع کی گئی تھی جس میں ان 4 ممالک کے وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں ملاقات کی تھی۔ تب سے اب تک کواڈ کے وزرائے خارجہ دو مرتبہ ملاقات کرچکے ہیں۔ ایک مرتبہ گزشتہ سال ٹوکیو میں شخصی طور پر اور گزشتہ مہینہ ورچول طریقہ سے۔ صدر بائیڈن ہند- بحرالکاہل علاقہ کو کھلا اور آزاد خطہ بنانا چاہتے ہیں، تاہم وہ چین کے لئے نرم رویہ بھی اختیارکرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہند-بحرالکاہل علاقہ امریکہ کے نئے انتظامیہ کے لئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
ہندوستان کے لیے فوائد
تاہم حقیقت یہ ہے کہ کواڈ ابھی تک ایک رسمی اتحاد میں تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ابھی تک اس گروپ نے صرف آفات سماوی اور ہنگامی حالات سے نمٹنے پر ہی اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور اس کے علاوہ واضح طور پر دفاع، تجارت یا کسی اور موضوع پر اپنی سوچ اور حکمتِ عملی کا کوئی نقشہ پیش نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ کواڈ ممبران نے علاقے کے دیگر ممالک کے خدشات کو دور کرنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی ہے، خاص طور سے آسیان رکن ممالک جیسے کہ ملیشیا اور انڈونیشا کی۔
حالیہ ورچول اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں 4 ممالک نے کوویڈ ویکسین کی فراہمی میں اضافہ کی ضرورت پر زور دیا اور اس میں ہندوستان کی کلیدی حیثیت کو واضح کیا۔ آسٹریلیا اور امریکہ نے ہندوستان کو ان ٹیکوں کو کثیر تعداد میں فراہم کرانے کے لیے مالی امداد کی بھی پیش کش کی ہے۔ لیکن چین سے کس طرح نمٹا جائے اس مسئلہ پر رکن ممالک کے درمیان ہنوز اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا کواڈ حقیقی علاقائی اتحاد میں تبدیل ہونے کی اہلیت رکھتا ہے یا صرف اسے چند ممالک کے لئے محدود کردیا جائے گا اور جب کبھی بھی اس کی ضرورت پڑے گی، اس کا استعمال کیا جائے گا۔
ہندوستان کی وسیع مارکٹ اور اپنی کمپنیوں کے لیے اس مارکٹ کے دروازے کھولنے کے ساتھ ہی علاقہ میں چین کو چیلنج دینے کی قابلیت رکھنے کی وجہ سے، کئی مغربی ممالک اس علاقہ میں ہندوستان کو ایک مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ہندوستانی قائدین نے بھی اس حقیقت کو محسوس کیا ہے کہ وہ اسے ایک علاقائی طاقت میں تبدیل کرسکتے ہیں اور جغرافیائی، دفاعی حکمت عملی کو اختیار کرکے اس کے ذریعے ہندوستان کے معاشی، دفاعی اور سلامتی تقاضوں کو بہتر طور پر پورا کرسکتے ہیں۔
ہندوستان کے وزیراعظم نے ہند-بحرالکاہل کے ہندوستانی نظریہ پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے ترقی اور خوشحالی کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم قرار دیا ہے۔ کواڈ میں ہندوستان کے مرکزی رول کا اندازہ بائیڈن انتظامیہ کے چین سے نمٹنے کے لئے علاقائی حکمت عملی میں ہندوستان کو شامل کرنے سے بھی لگا یا جاسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی چینی اور امریکی مندوبین نے انکریج، الاسکا میں ملاقات کی تھی۔ ذرائع کے مطابق یہ میٹنگ کافی ہنگامی رہی اور اس کے دوران چینی مندوبین نے اپنی حکومت کے نقطۂ نظر کو کافی پُرزور انداز میں پیش کیا اور امریکہ-چین تعلقات کے تئیں امریکی خواہشات کو یکسر مسترد کر دیا۔ دفاعی حلقوں میں یہ تاثر بھی پایا جارہا ہے کہ امریکہ نے ایک ہی ہفتے میں چینی حکام کے ساتھ میٹنگ اور کواڈ اجلاس کا انعقاد اس لیے کیا تھا، کیونکہ وہ کواڈ اجلاس کے ذریعے چین پر دباؤ بنانا چاہتا تھا تاکہ چین اس کے زیادہ تر مطالبات کو قبول کرلے اور جنوب چینی سمندر میں اپنی فوجی کارروائیوں پر روک لگانے کے لیے امریکی اور جاپانی شرائط کو ماننے کے لیے تیار ہوجائے۔
ابھی تک امریکہ نے اس سلسلہ میں جو بھی اقدامات کیے ہیں اس سے یہی احساس ہوتا ہے کہ امریکہ چین کا مقابلہ ایک اتحاد کے ذریعہ کرنا چاہتا ہے اس لئے کواڈ میں ہندوستان کا کردار مرکزی ہے۔ ساتھ ہی امریکہ ہندوستان کے اس احساس سے بھی بخوبی واقف ہے کہ وہ علاقہ میں چین کے خلاف ایک بااثر علاقائی طاقت کے طور پر ابھرنا چاہتا ہے۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ امریکہ کواڈ میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو اور بھی مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ جہاں ٹرمپ انتظامیہ اس علاقہ میں اس کی اہمیت کو نظر انداز کررہا تھا وہیں بائیڈن انتظامیہ خطے میں ہندوستان کو ایک کلیدی رول ادا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ’بی جے پی رکن اسمبلی نے اپنے اوپر خود ہی حملہ کروایا‘
حال ہی میں امریکی وزیر دفاع لایڈ آسٹن نے ہندوستان کا دورہ کرتے ہوئے ان پہلووں پر بھی روشنی ڈالی تھی اور کواڈ میں ہندوستان کے مرکزی کردار کو کواڈ کی افادیت کے ساتھ منسوب کیا تھا۔ عملی طور پر محکمہ خارجہ میں ٹولی بلکن اور قومی سلامتی کونسل میں جیکس اولیوان ساتھ ہی ساتھ صدر بائیڈن خود ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کا بہترین تجربہ رکھتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے ہند- امریکی تعلقات کو اپنے آئندہ منصوبوں میں مرکزی اہمیت دی ہے۔ چوں کہ چین دونوں کا مشترکہ حریف ہے اس لئے یہ تعلقات دونوں کے لئے ثمر آور ثابت ہوسکتے ہیں۔ امریکہ ہندوستان سے جو کلیدی رول چاہتا ہے وہ اسے کواڈ میں ادا کرسکتا ہے۔ اور معاشی فائدوں کے علاوہ ہندوستان کو امریکی فوجی ہارڈویر کی فروخت اور باہمی تعاون میں اضافہ کے لئے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔