گیان واپی مسجد قضیہ محض مسلم پرسنل لاء اور وقف بورڈ کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑا جا سکتا... ظفر آغا

گیان واپی مسجد معاملے میں مسلمانوں کی جانب سے کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جس سے ہندو ردعمل پیدا ہو، ورنہ انجام وہی ہوگا جو بابری مسجد معاملے کا ہوا، جس کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی اقتدار میں پہنچ گئی

گیان واپی مسجد/تصویر آئی اے این ایس
گیان واپی مسجد/تصویر آئی اے این ایس
user

ظفر آغا

سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھولا گیا اور سنہ 1992 میں اس کو منہدم کر دیا گیا۔ اس تقریباً چھ سال کی مدت کے دوران ہندوستان کا بیشتر حصہ ہندو-مسلم فسادات میں جلتا رہا اور ان فسادات میں کئی ہزار افراد مارے گئے۔ سنہ 2019 میں سپریم کورٹ نے ایک حیرت انگیز فیصلے کے تحت منہدم بابری مسجد کی جائے مقام زمین ایک ٹرسٹ کو رام مندر تعمیر کے لیے سونپ دی گئی۔ اس فیصلے کے وقت رنجن گگوئی چیف جسٹس تھے جن کو مودی حکومت نے ریٹائر ہونے کے چند ماہ بعد راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کر دیا۔ اس پورے قضیے کا سیاسی نتیجہ یہ رہا کہ سنہ 1986 سے لے کر سنہ 2019 تک ہندوستانی مسلمان پوری طرح حاشیہ پر پہنچا دیا گیا اور سنہ 2014 سے اب تک یعنی 2021 تک نریندر مودی کی قیادت میں مسلمان کم و بیش دوسرے درجے کا شہری ہو گیا اور ہندوستان بہت تیزی سے ایک ہندو راشٹر کا روپ لیتا گیا۔ یہ سارا کھیل محض بابری مسجد-رام مندر قضیے کے زیر سایہ کھیلا گیا۔

راقم الحروف ان واقعات کا ذکر اپنے کالم میں برابر کرتا رہا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے بھی میں نے ان ہی واقعات کا ذکر کیا اور اب پھر اس لیے اس بات کو دہرا رہا ہوں کہ سنہ 1986 سے سنہ 2021 تک تقریباً پچیس سالوں کا وقت کسی بھی قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیے بہت ہوتا ہے۔ ان پچیس سالوں میں ہندوستانی مسلمانوں پر ایک قیامت گزر گئی۔ ہزاروں مسلمانوں کی جان گئی۔ کئی ہزار کروڑ روپے کا مالی نقصان پہنچا۔ سنہ 2002 میں گجرات میں باقاعدہ مسلم نسل کشی ہوئی۔ مسجد کی جگہ مندر تعمیر کے ذریعہ اس کے عقیدے کو مجروح کیا گیا اور اب وہ باقاعدہ دوسرے درجے کا شہری ہے! لیکن اللہ کی پناہ، ایک چوتھائی صدی گزر جانے کے بعد بھی ہندوستانی مسلمان کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ آج یہ عالم ہے کہ بنارس میں کاشی وشوناتھ مندر اور گیان واپی مسجد کا قضیہ بالکل اسی طرح اٹھ کھڑا ہوا ہے جیسے 1986 میں ایودھیا میں بابری مسجد-رام مندر قضیہ اٹھا تھا۔ عالم یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان کی کوئی ایسی تنظیم نہیں ہے کہ جو جدید طرز اور جدید لب و لہجے میں ملک کے سامنے اپنا موقف اس طرح پیش کر سکے کہ بی جے پی ہندو رد عمل پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ آج بھی وہی وقف بورڈ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ ہیں جو یہ بیان دے رہے ہیں کہ وہ گیان واپی مسجد کے معاملے میں کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔


کیا وقف بورڈ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ اس بات کے اہل ہیں کہ وہ سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کے شاطر دماغ کا سامنا کر سکیں؟ یہ دونوں ہی مسلم تنظیمیں جیسی ہیں اس سے ہر ذی ہوش مسلمان بخوبی واقف ہے۔ سارے ہندوستان میں وقف بورڈوں کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ آزادی سے لے کر اب تک مختلف وقف بورڈوں نے ہزاروں کروڑ روپے کی وقف کی املاک خرد برد کر دی اور وقف بورڈ چلانے والوں کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی۔ پھر وقف بورڈ شرعی لب و لہجہ کے علاوہ نہ تو دوسرا لہجہ استعمال کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس سنگھ اور بی جے پی کی سیاسی چالوں کی کاٹ ہو سکتی ہے۔ جہاں تک مسلم پرسنل لاء بورڈ کا سوال ہے، تو بابری مسجد قضیہ کے معاملے میں سب اس کا طرز عمل دیکھ چکے ہیں۔ علماء اور شریعت کے زیر سایہ چلنے والا بورڈ مسلمانوں کے اندرونی شرعی مسائل میں فتویٰ دے کر ضرور دخل اندازی کر سکتا ہے لیکن کورٹ کچہری اور مودی جیسے سیاسی ذہن کا سامنا کر پانا اس کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔

سچائی یہی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے پاس اس وقت نہ تو کوئی جدید طرز کی تنظیم ہے اور نہ ہی کوئی ایسا گروپ موجود ہے جس کے ذریعہ وہ گیان واپی مسجد کے معاملے میں خاطر خواہ پیش قدمی کر سکے۔ چنانچہ ہندوستانی مسلمان کے سامنے ایک بار پھر وہی سوال منھ کھولے کھڑا ہے کہ گیان واپی معاملے میں کرے تو کرے کیا! بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے سنہ 1986 سے لے کر 1992 تک جس طرح بابری مسجد تحفظ کی تحریک چلائی، راقم الحروف نے پچھلے ہفتے بہت تفصیل سے اس کا ذکر کیا تھا۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایسی غلطی سر زد ہوئی جن کے سبب ملک میں ہندو رد عمل پیدا ہوا۔ کم از کم کاشی کے معاملے میں وہ غلطی سر زد نہیں ہونی چاہئے۔ وہ غلطی کیا تھی! یہ بھی بیان کیا تھا کہ بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد جس طرح پہلے ایکشن کمیٹی کے زیر سایہ مسلمانوں کی مسجد تحفظ اور اسلام بچاؤ کی بڑی بڑی ریلیاں ہوئیں، اس سے سَنگھ اور بی جے پی کو ’رام مندر بناؤ‘ اور ’ہندو بچاؤ‘ کے طور پر جواب دینے دینے کا موقع مل گیا۔ پہلے وشو ہندو پریشد اور پھر لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں بی جے پی نے بہت خوبی کے ساتھ سارے معاملے کو سیاسی شکل دے کر مسجد-مندر معاملے کو ہندو-مسلم عقائد کا رنگ دے کر ہندو رد عمل پیدا کیا اور عقیدت مند عام ہندو کی نظروں میں مسلمانوں کو رام کا دشمن یعنی ہندو دشمن بنا دیا۔ سَنگھ اور بی جے پی کی سیاست کا تمام دار و مدار مسلمان کو ہندو دشمن کی شکل میں پیش کرنے پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ چنانچہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی جذباتی اور غیر دانشمندانہ حکمت عملی سے سَنگھ و بی جے پی کی مسلم مخالف سیاست اس ملک میں ایسی چمکی کہ پچیس سالوں میں اب نریندر مودی کی قیادت میں ملک ہندو راشٹر کے دہانے تک پہنچ گیا۔


پچھلے ہفتے میں نے اپنے کالم میں یہی بات عرض کی تھی۔ اس بار اس کا نچوڑ پھر دہرانے کا مقصد یہی ہے کہ کاشی معاملے میں بھی اگر محض وقف بورڈ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ہاتھوں میں پورا معاملہ سونپ دیا گیا تو پھر انہی غلطیوں کا امکان ہے جو پہلے سر زد ہو چکی ہیں۔ یہ شرعی تنظیمیں ہیں اور شرعی لب و لہجے میں ہی گفتگو کر سکتی ہیں۔ تو پھر کیا کیا جائے؟ میری حقیر رائے میں اولاً اس معاملے کو میڈیا کے ذریعہ شرعی رنگ دینے سے قطعاً گریز کرنا چاہیے۔ ’مسجد اپنی تعمیر سے لے کر قیامت تک مسجد ہی ہو سکتی ہے‘ جیسی دلیل مسلمانوں کو تو متوجہ کر سکتی ہے لیکن جواب میں وشو ہندو پریشد اور بی جے پی بھی تو یہ کہہ سکتی ہے کہ آپ کی مسجد تو قیامت تک مسجد رہ سکتی ہے لیکن ہمارا مندر آپ نے توڑ کر مسجد بنائی، وہ ہمارے عقائد کے اعتبار سے پھر سے مندر میں کیوں نہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ایسے دلائل جو محض مسلمان کو تو خوش کر دیں، لیکن ہندو کو بلاوجہ جھنجھلا دیں، ان کو پیش کرنے سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام وقف بورڈ اور پرسنل لاء بورڈ کے لیے آسان کام نہیں، بھلے ہی عدالت میں مقدمہ ان کے نام سے ہی کیوں نہ دائر کیا گیا ہو۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کام کون کر سکتا ہے! آپ کے پاس کوئی جدید تنظیم نہیں ہے کہ جو شرعی اور سیاسی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے جدید اڈیم میں مسلم کیس پیش کر سکے۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی طرح راتوں رات ایک تنظیم کھڑی کر دینا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں میری حقیر رائے یہ ہے کہ ملک کے نامور مسلم وکلا اور کچھ ریٹائرڈ سینئر مسلم افسران اور مسلم معاملات میں مسلم کاز کے لیے لڑنے والے غیر مسلم این جی اوز چلانے والی ہستیاں کا ایک گروہ قائم ہونا چاہیے جو کہ عدالت میں چلنے والے مقدمات اور ان کے سیاسی نتائج پر غور و فکر کے ساتھ میڈیا اور ملک سے ماڈرن لب و لہجے میں گفتگو کرے تاکہ سنگھ اور بی جے پی کو ہندو رد عمل پیدا کرنے کا موقع فراہم نہ ہو۔ اگر مسلم پرسنل لاء بورڈ یا وقف بورڈ جیسی شرعی تنظیمیں عوامی سطح پر گیان واپی مسجد معاملہ میں لب کشائی کرتی ہیں تو پھر سنگھ کو اور وشو ہندو پریشد کو ہندو کیس پیش کرنے کا موقع فراہم ہوگا جو پورے معاملے کو ’ہندو آستھا‘ کا معاملہ بنا دے گا اور بس پھر قیامت ہو جائے گی۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں کی جانب سے باریش علماء کا جواب وہ سادھوؤں کے ذریعے دیں گے، جیسا انھوں نے بابری مسجد معاملے میں بہت چالاکی سے کیا تھا اور رام مندر تعمیر ہندو کا عقیدہ بن گئی۔ یعنی گیان واپی مسجد معاملے میں قدامت پسند مسلم عناصر اور علماء سے عوامی سطح پر گریز کرنا ہی دانشمندی ہوگی، خواہ وہ پس پردہ اس معاملے میں اپنی گراں قدر رائے رکھتے رہیں۔


اب تیسری اور سب سے اہم بات جسے گیان واپی مسجد قضیہ کے سلسلے میں گرہ باندھ لینا چاہیئے، وہ یہ ہے کہ جیسے بابری مسجد معاملے میں ایکشن کمیٹی کی جانب سے سڑکوں پر ریلیاں ہوئیں اور ان میں اسلام بچاؤ، مسلمان بچاؤ و مسجد بچاؤ جیسی جذباتی تقریریں ہوئیں، ویسی کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اگر آپ سڑکوں پر نکلے تو رام مندر تعمیر کی طرح وہ بھی سڑکوں پر نکلیں گے اور پھر یقیناً ملک میں ہندو رد عمل پیدا ہوگا جس کا سیدھا فائدہ نریندر مودی الیکشن میں کامیابی سے اٹھائیں گے اور آپ منھ تکتے رہ جائیں گے۔ یعنی سڑکوں اور ریلیوں کی سیاست محض بی جے پی کے حق میں ہی ہوگی۔ لہٰذا وہ قطعاً نہیں ہونی چاہیے۔ آخری بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر نعرۂ تکبیر لگا، تو یاد رکھیے ’جے شری رام‘ کا نعرہ ضرور لگے گا۔ اس کا نتیجہ 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں جو ہوا اس سے اس ملک کا مسلمانوں بخوبی واقف ہے۔ لب و لباب یہ کہ گیان واپی مسجد معاملے میں مسلم جانب سے کوئی بھی ایسی بات نہ ہو جس سے ہندو رد عمل پیدا ہو، اگر ایسا ہوا تو پھر وہی حشر ہوگا جیسا کہ بابری مسجد معاملے میں ہوا اور جس کا سیاسی فائدہ اٹھا کر بی جے پی اقتدار میں پہنچ گئی۔ اس لیے جوش نہیں ہوش سے کام لیجیے اور اس معاملے کو جذباتی طور سے نہیں ہوش اور حکمت عملی سے حل کرنے کی کوشش کیجیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Apr 2021, 12:12 PM