اویسی نے بی جے پی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا!
اگر مسلم طبقہ اویسی کی سیاست کی حوصلہ شکنی کریں گے تبھی ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کی شکست ہوگی۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب ان کو یہ فرقہ وارانہ آگ چاروں طرف سے گھیر لے گی
گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) کےانتخابات بھی ہو گئےاور ان کے نتیجے بھی آ گئے۔ نتائج ویسے ہی آئے جیسا شور تھا اور جیسے حالات تھے۔ شور ایسا تھا جیسے امریکہ کے صدارتی انتخابات ہوں اس لئے نتائج کا انتظار بھی ویسا ہی تھا۔ خود اویسی نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ بس انتخابی مہم میں ٹرمپ کا آنا اور باقی ہے۔ بی جے پی نے جتنی محنت کی تھی اس کے حساب سے اسے سیٹیں ملیں اور بی جے پی کے خوف میں جی رہے مسلمان جتنی سیٹیں اویسی کو دے سکتے تھے اتنی سیٹیں پچھلی بار کی طرح دے دیں اور اس میں کوئی کمی نہیں کی۔
مہاراشٹر کے بعد بہار میں کامیابی حاصل کرنے اور کامیابی دلانے کے بعد اسدالدین اویسی نے حیدرآباد میں بھی بی جے پی کا پرچم لہرا دیا۔ حیدرآباد میں جو بی جے پی کو اتنی زبردست کامیابی ملی ہے اس کی وجہ صرف اور صرف اویسی ہیں۔ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کے فروغ کے لئے جو کام بابری مسجد نے کیا تھا وہی کام اب اسدالدین اویسی کر رہے ہیں۔ اویسی دھیرے دھیرے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو طاقتور بنانے کا جھانسا دے کر خود کو مضبوط کر رہے ہیں لیکن اپنے اس عمل سے وہ ملک کے سیکولر کردار کوبری طرح نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ اویسی کی اس سیاست کی وجہ سے غیر مسلم طبقہ دائیں بازو کی فرقہ وارانہ شدت پسند سیاست کی جانب راغب ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ملک میں اکثریتی مذہبی سیاست کو فروغ مل رہا ہے اور ہندوستان یعنی سیکولر آواز انتہائی کمزور اور دھیمی ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے عام عوام کومذہبی شور اچھا لگنےلگا ہے۔
اویسی کو معلوم ہے کہ اس کے سب سے بڑے ہتھیار اس کا لباس، اس کا ظاہری چہرہ اور اس پر اس کا فراٹے دارانگریزی میں جواب دینا ہیں۔ ان ہتھیاروں کی وجہ سے جہاں ایک جانب مسلمان نوجوان اس کی جانب آنکھیں بند کر کے راغب ہو رہے ہیں وہیں رد عمل میں غیر مسلم بھی فرقہ وارانہ منافرت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اپنی اس فرقہ وارانہ سیاست سے وہ ذاتی فائدہ تو اٹھا سکتے ہیں لیکن مسلمانوں اور ملک کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ وہ کثیر رنگی ہندوستانی باغیچے کو دو رنگی باغیچے میں تبدیل کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ کچھ گنتی کی جگہ پر وہ اپنے رنگ کے پھول لگانے اور کھلانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے لیکن ’ہندوستان‘ نامی اس باغیچے میں ایک رنگ کے پھولوں اور ان پھولوں کے درختوں کی اکثریت ہو جائے گی۔
اویسی نے اگر مسلمانوں کے نام کی سیاست بند نہیں کری تو وہ دن دور نہیں جب ملک میں نفرت کا بازار اتنا گرم ہوجائے گا کہ اس کی تپش ان پر، ان کے گھر پر اور ان کے بچوں پر بھی پڑے گی لیکن آگ اس وقت اتنی زیادہ پھیل چکی ہوگی کہ ان کو خود اس تپش سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں سوجھے گا۔ مہاراشٹر میں اویسی بی جے پی کو فائدہ پہنچا چکے ہیں، بہار میں بی جے پی کا قد بڑا کر چکے ہیں اور حیدرآباد میں بی جے پی کا پرچم لہرا چکے ہیں، اور اگر انہوں نے یہی رویہ رکھا تو وہ دن دور نہیں جب وہ مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کو مطلوبہ فائدہ پہنچا دیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اویسی خود کچھ نہیں ہیں اور ان کی بڑھتی طاقت معصوم مسلمانوں کی حمایت ہے۔ مسلمانوں کوسمجھنا ہوگا کہ اویسی کی سیاست میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس کا سیدھا نقصان انہیں کا ہے۔ اگر وہ اویسی کی سیاست کی حوصلہ شکنی کریں گے تبھی ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کی شکست ہوگی۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب ان کو یہ فرقہ وارانہ آگ چاروں طرف سے گھیر لے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔