شاعر انقلاب ’جوش ملیح آبادی‘: یوم ولادت پر خصوصی پیشکش... علی جاوید

جوش کی طبیعت میں ولولہ تھا اور فطرت سے گہرا لگاؤ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اشعار کے ذریعے جو عکاسی کی اسے پڑھ کر قاری پر ایسا اثر ہوتا ہے جیسے وہ ان اشعار کے ذریعے فطرت کے مناظر کی تصویر دیکھ رہا ہو

شاعر انقلاب، جوش ملیح آبادی
شاعر انقلاب، جوش ملیح آبادی
user

علی جاوید

جوشؔ کا اصلی نام شبیر حسن خاں تھا جو 5 دسمبر 1898 کو ملیح آباد (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے۔ خاندانی حسب نسب کے اعتبار سے ان کے اجداد یوسف زئی پٹھان تھے جو افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آ گئے تھے۔ ملیح آباد میں سکونت اختیار کر لی تھی اور نوابین اودھ کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ 1916 میں ان کے والد بشیر احمد خاں کے انتقال کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ اس سے قبل خاندانی روایت کے مطابق انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اور عربی و فارسی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آگرہ کے سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ کچھ عرصے تک شانتی نکیتن میں بھی تعلیم حاصل کی لیکن آگے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور 1925 میں حیدر آباد چلے گئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ ترجمہ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ابتدا سے ہی طبیعت میں علمی اور ادبی دلچسپی کی وجہ سے شعر و شاعری کی طرف مائل ہوئے اور والدین کی تمام تر پابندیوں کے باوجود بچپن سے ہی شعر کہنے شروع کر دیئے۔ طبیعت میں جولانی کے باعث جو بات بعید از عقل ہوتی اسے شدت سے رد کر دیتے اور بڑے سے بڑے شخص کو خاطر میں نہ لاتے۔ اس شدت پسندی کے سبب انھیں نظام حیدر آباد کا رویہ پسند نہیں آیا تو ان کے خلاف ایک نظم لکھ دی اور نوکری سے برطرف کر دیئے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے ’کلیم‘ نام کا رسالہ نکالنا شروع کیا جس میں انھوں نے انگریزی حکومت کے خلاف مضامین لکھنے شروع کیے اور آزادی کی تحریک کے اہم رکن بن گئے۔ اس زمانے میں ان کی قربت آزادی کے بڑے رہنماؤں سے ہوئی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے نزدیکی اتنی بڑھی کہ دوستانہ رشتہ قائم ہو گیا۔

جولانیٔ طبع کے باعث انگریزی حکومت کے خلاف جو نظمیں لکھیں وہ عوام میں کافی مقبول ہوئیں اور اس صفت نے ان کو شاعر انقلاب کا درجہ دیا۔ ان کی خود کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہوا ان کا اپنا ایک شعر اتنا مقبول ہوا کہ عوامی سطح پر زبان زد ہو گیا۔ انھوں نے کہا:

کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ، انقلاب و انقلاب و انقلاب


بنیادی طور پر جوش امن اور انسانیت کے شاعر تھے اور ہر طرح کی آزادی کی حمایت کرتے تھے۔ جو بات پسند نہ آئے اسے یکسر رد کر دینے میں ذرا بھی تکلف نہیں کرتے تھے۔ طبیعت میں ولولہ تھا اور فطرت سے گہرا لگاؤ ہونے کے باعث جوش نے اپنے اشعار کے ذریعے جو عکاسی کی ہے اسے پڑھ کر قاری پر ایسا اثر قائم ہوتا ہے جیسے وہ ان اشعار کے ذریعے فطرت کے مناظر کی تصویر دیکھ رہا ہو۔ انگریزوں کے خلاف ’آزادی کا خواب‘ کے علاوہ انھوں نے ’محنت کش عوام‘ میں زندگی کے اصل معنی تلاش کیے اور کسان، محنت کش عورتوں میں جن کی جو تصویر نظر آئی اس نے جوشؔ میں رومانیت کا گہرا اثر چھوڑا۔ زبان کے معاملے میں جوشؔ نہایت حساس تھے اور کسی قدر معیار کی سطح پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ اردو میں کم ہی ایسے شاعر ہوئے ہیں جنھیں الفاظ کا جادوگر کہا جاتا ہے اور جوش ان چند شعراء میں ایک ہیں۔ ان کی بہترین نظموں میں ’شکست زنداں کا خواب‘، ’کسان‘، ’وطن‘، ’البیلی صبح‘، ’ایسٹ انڈیا کے فرزندوں سے خطاب‘، ’خاتون مشرق‘، ’حسن اور مزدوری‘، ’مفلس‘ وغیرہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاعری کی ہر صنف میں کامیاب طبع آزمائی کی اور غزل، مرثیہ، رباعی وغیرہ میں شاعری کے بہترین نمونے پیش کیے۔

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک آزادی کی مہم اپنے زوروں پر تھی، ساتھ ہی ترقی پسند ادبی تحریک کے ذریعے جوش کو اپنے جذبات کے اظہار کا ایک بھرپور پلیٹ فارم مہیا کروایا جس کے تحت وہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے صف اول کے مبلغین میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے مولویوں کی مذہبی ریاکاری کو بھی اپنی شاعری کا عنوان بنایا اور ان کے رویے کو اخلاقی پستی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی اور کہا:

عالم اخلاق کو زیر و زبر کرتا ہے تو

خون اہل بیت میں لقمے کو تر کرتا ہے تو

یا

ذاکروں نے موت کے سانچے میں دل ڈھالے نہیں

یہ شہید کربلا کے چاہنے والے نہیں


جوش ہر طرح کی مذہبی شدت پسندی کے خلاف تھے اور انسان کی عظمت ان کے نزدیک سب سے اہم قرار پائی۔ عقائد کے معاملے میں وہ ہمیشہ تذبذب میں رہے اور حق و انصاف کے معاملے میں خدا سے بھی اس طرح مخاطب ہوئے:

شبیر حسن خاں نہیں لیتے بدلہ

شبیر حسن خاں سے بھی چھوٹا ہے خدا

اپنی ایک رباعی میں انسانی عظمت کی عکاسی اس طرح کرتے ہیں:

ائے مرد خدا نفس کو اپنے پہچان

انسان حقیقت ہے اور اللہ گمان

اٹھ بڑھا ہاتھ کو بیعت کو مری

پڑھ کلمہ لا الہ الا انسان

لیکن دوسری طرف سورۃ رحمان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کا بہترین منظوم ترجمہ اردو میں کیا۔ اس کے علاوہ وجود خدا کی شہادت کچھ اس طرح دی:

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے

اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

اردو مرثیے کو فنی سطح پر میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ نے اردو شاعری کی اس بلندی پر پہنچا دیا کہ بہت کم شاعر ایسے ہوئے جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اس فن کو وسعت بخشی اور جوش ان میں سے ایک ہیں۔ ان کے مرثیے کے ایک بند سے ان کے فنی اظہار کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شب عاشور کا منظر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وہ رات، وہ فرات کی موجوں کا خلفشار

وہ زلزلے کی زد پہ خواتین کا وقار

عابد کی کروٹوں میں وہ بے چارگی کا بار

اصغر کا پیچ و تاب وہ جھولے میں بار بار

اصغر میں پیچ و تاب نہ تھا اضطراب کا

وہ دل دھڑک رہا تھا رسالت مآب کا


سماج میں انسانی اقدار کی پامالی نے جوش کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا اور ملک کی آزادی کے بعد سماجی اخلاقیات میں جو گراوٹ آئی اس کا مرثیہ بھی انھوں نے ’میرا مرثیہ‘ کے عنوان سے لکھا اور کہا:

مجھے اے ہم نشیں اس زندگی نے

ہنسایا جب تو رونے کو ہنسایا

ارے اس عالم تعجیل خو نے

یہاں مجھ کو بہت پہلے بلایا

جہاں سو سال بعد آنا تھا مجھ کو

وہاں سو سال پہلے کھینچ لایا

مجھے گونگوں کی محفل میں جگہ دی

مجھے سوتوں کے حجروں میں جگایا

مجھے بونوں کے پہلو میں جگہ دی

مجھے مردوں کی ارتھی پر بٹھایا

ہزاروں بار مجھ پر مفتیوں نے

بگڑ کر کفر کا فتویٰ لگایا

کمر میرے تجسس کی جھکا دی

گلا میرے تفکر کا دبایا

مرے افکار پر کی سنگ باری

اور اتنی کوئی پھل رہنے نہ پایا

مختصراً یہ کہ جوش نے اپنے مزاج کے مطابق اس سماج میں خود کو کبھی مطمئن محسوس نہیں کیا۔ اس پر ستم یہ کہ آزادی کے بعد نہرو کی قیادت میں انھیں جو سکون ہندوستان میں رہ کر مل سکتا تھا، اسے اپنی ناعاقبت اندیشی کے باعث کھو دیا اور 1956 میں پاکستان کی شہریت اختیار کر لی اور زندگی کے آخری لمحے تک بے چین رہے اور انھیں سکون حاصل نہیں ہوا، اور اسی کسمپرسی کے عالم میں 22 فروری 1982 کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔