کیوں نہ کہوں: نفرت نہیں محبت کو پھیلانے کی ضرورت ہے... سید خرم رضا

مولانا کلب صادق اور احمد پٹیل کی شخصیت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، مولانا نے جو کچھ سماج کو دیا ہے وہ کوئی نہیں دے سکتا ہے لیکن احمد پٹیل کی انکساری نے سماج میں مثبت ماحول پیدا کرنے میں ضرور مدد کی ہے۔

تصاویر قومی آواز
تصاویر قومی آواز
user

سید خرم رضا

کورونا وبا کے اس دور میں کئی اہم شخصیات اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئیں اور اپنی رخصتی سے ایک بڑا خلا چھوڑ گئیں۔ ویسے تو ہر خاندان نے وبا کے اس دور میں کسی نہ کسی شکل میں کوئی نہ کوئی غم ضرور سہا ہے اور سماجی سرگرمیوں کی عدم موجودگی اور وبا کے خوف کی وجہ سے ان کا یہ غم بہت کم لوگوں نے ساجھا کیا ہے۔ انفرادی غم اور نقصان کے علاوہ حال ہی میں کچھ سماجی اور قومی نقصان بھی ہوئے ہیں۔ ان سماجی، قومی اور عالمی نقصانات میں سے ایک کا شمار مذہبی شخصیت میں ہوتا ہے اور دوسری شخصیت کا شمار سیاسی رہنما کے طور پر کیا جاتا ہے۔ جی ہاں، مولانا کلب صادق اور احمد پٹیل کے انتقال کی شکل میں یہ دو بڑے ناقابل تلافی نقصانات حال ہی میں ہوئے ہیں۔

مولانا کلب صادق صاحب نے اپنی زندگی کے ذریعہ اتحاد اور علم کی وہ روشنی پھیلائی ہے، جس نے نفرتوں اور جہالت کے اندھیروں کو کافی حد تک دور کیا ہے۔ کوئی اگر یہ کہے کہ کسی زمانہ میں لکھنؤ کے محرم کا مطلب شیعہ-سنی تشدد ہوتا تھا تو آج کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا، کیونکہ ایک مدت ہو گئی کہ محرم کے موقع پر دونوں مسلک کے لوگوں میں آپسی اختلافات اور تشدد کو۔ اس تبدیلی کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ صرف اور صرف مولانا کلب صادق مرحوم کو جاتا ہے۔ مولانا نے شیعہ-سنی اتحاد، ہندو-مسلم اتحاد اور علم کے فروغ کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا تھا۔ انہوں نے انتہائی موثرانداز میں اپنے ان مقاصد میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ مولانا کی دو نماز جنازہ اس بات کا ثبوت ہیں۔ سنیوں کا کوئی اجلاس ہو یا شیعہ حضرات کی کوئی محفل ہو، سب کے لئے مولانا کلب صادق انتہائی محترم تھے۔ صرف شیعہ-سنی ہی کیا غیر مسلم مذہبی رہنما اور سماجی شخصیات کے دلوں میں بھی ان کے لئے بڑی عقیدت تھی۔ جہالت کو وہ سب سے بڑی لعنت تصور کرتے تھے اور بس ان کا یہی پیغام ہوتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کیا جائے اور علم ہی تمام مسائل کا حل ہے۔


عالمی مفکر مولانا کلب صادق صاحب کو لوگ جہاں مذہبی رہنما تصور کرتے تھے وہیں احمد پٹیل کو کانگریس کا رکن ہونے کی وجہ سے ایک کانگریسی رہنما تصور کرتے تھے، لیکن نہ تو مولانا کلب صادق مرحوم کو مذہب کے دائرے میں قید کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی احمد پٹیل کی شناخت کو کانگریس تک محدود رکھی جا سکتی ہے۔ احمد پٹیل کانگریس رہنما تھے اور کانگریس صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر بھی تھے لیکن ان سب ذمہ داریوں کے باوجود وہ ایک محب وطن تھے جن کا ہر فیصلہ ملک کے مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اختلافات کے باوجود احمد پٹیل کی ہر شخص عزت کرتا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی سیاسی پوزیشن اپنے مفاد کے لئے استعمال نہیں کی۔ ان کی ہمشہ کوشش رہی کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ کریں جو سب کو قابل قبول ہو اور جس کے سماج و ملک پر مثبت اثرات پڑیں، چاہے وہ کانگریس کے اندرونی اختلافات ہوں، پارٹی اور حکومت کے درمیان اختلافات ہوں یا حکومت اور حزب اختلاف کے مابین اختلافات ہوں۔

ان دونوں شخصیات کے اس دنیا سے جانے کو ایک عظیم نقصان اس لئے کہا جا رہا ہے کیونکہ دونوں نے سماج میں اختلافات کو دور کرنے اور سماج میں محبت اور بھائی چارے کے فروغ کے لئے کام کیا۔ دونوں میں جو انکساری تھی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ سماج میں شور کو کم کرنا اور محبت کو فروغ دینا ہی اصل میں انسان کو عام لوگوں سے جدا کرتا ہے۔ اپنی بات منوانا، نفرتوں کو پھیلانا، ٹھیک کو ٹھیک نہ کہہ کر جو مجھے ٹھیک لگے اسی کو منوانا دراصل اس سے سماج کو تو نقصان ہوتا ہی ہے ساتھ میں یہ سوچ فاشیزم کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔


ویسے تو دنیا میں آنے اور یہاں سے جانے کا سلسلہ چلا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی آئے ہیں جنہوں نے اپنی بات منوانے کے لئے سماج اور دنیا کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ایسے بھی لوگ آئے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد اختلافات کو دور کرنا اور محبت و بھائی چارے کو فروغ دینا ہے، تاکہ ایک اچھا سماج قائم ہوسکے اور ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے سماج زندہ و تابندہ رہتا ہے۔ مولانا کلب صادق اور احمد پٹیل کی شخصیت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، مولانا نے جو کچھ سماج کو دیا ہے وہ کوئی نہیں دے سکتا ہے لیکن احمد پٹیل کی انکساری نے سماج میں مثبت ماحول پیدا کرنے میں ضرور مدد کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔