حکومت نے آخرکار ویکسین کی قلت کا اعتراف کیا... نواب علی اختر
اس سے پہلے مئی میں ویکسین کی قلت کی وجہ سے چو طرفہ حملوں کا سامنا کر رہی حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگست سے دسمبر کے درمیان 215 کروڑ خوراکیں دستیاب ہو جائیں گی۔
آخر کار وہی ہوا جس کا حکمرانوں کے علاوہ ملک کے تقریباً تمام لوگ خدشہ ظاہر کر رہے تھے۔ اب حکومت نے خود اعتراف کرلیا ہے کہ اگست سے دسمبر تک ویکسین کی 135 کروڑ خوراکیں ہی دستیاب ہو پائیں گی۔ جمعہ کے روز ایوان زیریں (لوک سبھا) میں حکومت نے بتایا کہ 23 جولائی 2021 تک 32.64 کروڑ افراد کو کووڈ۔19 کا کم از کم ایک ڈوز مل چکا ہے۔ حکومت کی وضاحت کانگریس رہنما راہل گاندھی کے کورونا ویکسی نیشن کے حوالے سے لوک سبھا میں پوچھے گئے سوالوں کے تحریری جواب میں سامنے آئی ہے۔ اس سے کورونا ویکسین کی قلت کا انکشاف بھی ہوگیا ہے کیونکہ حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ اگست سے دسمبرتک ویکسین کی صرف 135 کروڑ خوراک ہی دستیاب ہو پائیں گی۔
بتا دیں کہ اس سے پہلے مئی میں ویکسین کی قلت کی وجہ سے چوطرفہ حملوں کا سامنا کر رہی حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگست سے دسمبر کے درمیان 215 کروڑ خوراک دستیاب ہوجائیں گی۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ کورونا وبا کی ابھرتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر ویکسی نیشن مہم کو مکمل کرنے کی آخری تاریخ طے نہیں کی جاسکتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ویکسین ہے ہی نہیں۔ ایسی صورتحال میں مرکزی حکومت کو زبانی جمع خرچ کی بجائے ویکسین کی دستیابی کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا چاہیئے کیونکہ ملک کے عوام ابھی کورونا وائرس کی دوسری لہر سے پوری طرح سے ابھرے بھی نہیں ہیں کہ تیسری لہر کے اندیشے پوری شدت سے ظاہر کیے جانے لگے ہیں۔
حالانکہ لوگ دوسری لہر کے اثرات سے ابھی خود کو باہر نکالنے میں مصروف ہیں اور بتدریج صورتحال کو معمول پر لانے کی کوششیں دکھائی دے رہی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ تیسری لہر کے اندیشوں سے یہ سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ تیسری لہر کے تعلق سے حالانکہ عوام میں کوئی تجسس نہیں پایا جاتا لیکن ماہرین اور سائنسدانوں کی جانب سے مسلسل تیسری لہر کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اب تک کچھ ڈاکٹروں کی جانب سے یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ تیسری لہر کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ دھیان رہے کہ ہفتے کے روز ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 39 ہزار سے زیادہ کورونا کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کرونا کی اگلی لہر آتی ہے تو روزانہ 4 سے 5 لاکھ کیسیز سے نپٹنے کے لیے حکومت کو تیاری کرلینا چاہیے۔
ماہرین لگاتار حکومت کو متنبہ کررہے ہیں کہ ہندوستان میں اگلی لہر کی شدت کے دوران روزانہ 4-5 لاکھ کیسیز سامنے آئیں گے۔ اگلی لہر کو بے قابو ہونے سے بچانے کے لیے ابھی سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ماہرین اور سائنسدانوں و ڈاکٹروں کی جانب سے تیسری لہر کے اندیشوں کے باوجود عوام میں اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے اور اسی وجہ سے مرکزی حکومت کو تیسری مرتبہ ایک انتباہ جاری کرنا پڑا ہے۔ مرکز کا کہنا ہے کہ تیسری لہر کے اندیشوں سے غفلت برتی جا رہی ہے۔ اسے بھی معمول کی موسمی قیاس آرائیوں کی طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے، جبکہ ایسا نہیں کیا جانا چاہیے۔ مرکز کے بموجب تیسری لہر کے اندیشوں کو سنجیدگی سے لینے کی اور اس سے بچنے کے لئے مکمل احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کے یہ انتباہات بھی اسی وقت سامنے آئے جب ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ لا پرواہی کی فی الحال کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس کے نتائج سنگین بھی ہوسکتے ہیں۔ مرکز کی طرف سے تیسرا انتباہ اس وقت جاری کیا گیا جب ملک کے مختلف علاقوں میں تفریحی مقامات پر عوام کا ہجوم دیکھا جانے لگا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تفریحی اور پہاڑی مقامات پر ہجوم کو جمع ہونے سے روکا جانا چاہیے۔ یہ انتباہ ایسا ہے جس پر عوام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ماہرین اور ڈاکٹروں کی رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پہلی لہر کے بعد کی غفلت اور لاپرواہی کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ عوام نے پہلی لہر کے بعد ہوئی غفلت کی بھاری قیمت چکائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ٹوکیو اولمپکس: سندھو نے آسان فتح کے ساتھ شروع کی اپنی مہم
یہ حقیقت ہے کہ وائرس ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور ملک کے بعض مقامات پر اس کی شدت میں معمولی اضافہ ریکارڈ کیا جانے لگا ہے۔ جہاں تک عوام کی بات ہے تو یہ بھی سچ ہے کہ عوام نے احتیاط کو بالکل ہی بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ جس طرح کورونا وباء کے عروج کے ایام میں احتیاط برتی جا رہی تھی اور تمام اصولوں کا خیال رکھا جا رہا تھا اب ویسی صورتحال نہیں ہے بلکہ حالات کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے تباہی مچانے والی دوسری لہر کو بھی فراموش کر دیا گیا ہے۔ بازاروں اور ہر جگہ ہجوم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سماجی فاصلے کے اصولوں کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ دھیرے دھیرے ماسک کا استعمال بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ سینیٹائزرس کو بھی بھول چکے ہیں۔
لوگوں سے ملنے جلنے اور تقاریب و اجتماعات میں شرکت سابق کی طرح بحال ہوچکی ہے۔ احتیاط کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے۔ ایسے میں اگر ماہرین اور سائنسدانوں کے اندازوں کی طرح تیسری لہر نے شدت اختیار کرلی تو پھر صورتحال ہر ایک کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ دوسری لہر کے دوران ہم میں سے بے شمار نے اپنوں کو کھویا ہے۔ کئی خاندان ایسے بھی ہیں جہاں ایک سے زائد موت ہوئی ہے۔ کئی خاندان آج بھی دوسری لہر کے نقصانات کے زیر اثر ہیں۔ لاپرواہی کسی کی جانب سے بھی ہو اس کی قیمت ہر ایک کو چکانی پڑسکتی ہے۔ ماہرین اور ڈاکٹروں کے انتباہ کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت اور تحفظ کو ترجیح دے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔