رام مندر نے ہندوؤں کو ہی بانٹ دیا... اعظم شہاب
بی جے پی اگر شنکراچاریوں کو منانے یا ہٹانے میں کامیاب بھی ہو گئی تو بھلا ان عام ہندوؤں کی مخالفت کا وہ کس طرح جواب دے گی جن کے اعلانیہ اعتراضات اور سوالات سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم بھرے پڑے ہیں۔
تمام اعتراضات اور سوالات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی جی نے بالآخر رام مندر کا افتتاح فرما ہی دیا۔ افتتاح کے اس پروگرام کو رام للا کی مورتی کا ’پران پرتشٹھا‘ بتایا گیا تاکہ اس پورے عمل کا ایک مذہبی جواز رہے۔ لیکن شنکراچاریوں، اپوزیشن پارٹیوں، ہندو مہاسبھا کے لوگوں اور بڑی تعداد میں عام ہندوؤں نے اس کا اعلانیہ بائیکاٹ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ بی جے پی کا خالص سیاسی پروگرام تھا۔ اس کا مقصد عام انتخابات میں ہندو ووٹ حاصل کرنا ہے اور یہ کہ اس کا ہندو دھرم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس لیے قومی میڈیا پر اگر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ رام مندر کے افتتاح سے پورا ملک خوش ہے، یا ہندو، مسلم، سکھ و عیسائی کسی کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو یہ سراسر جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ بی جے پی کی پروپیگنڈہ مہم کا ہی ایک حصہ ہے۔
یہ پران پرتشٹھا صحیح تھی یا غلط، اس کے لیے مہورت ٹھیک تھا یا نہیں، رام للا کی پرانی مورتی کی جگہ نئی مورتی نصب کرنا کیا مناسب تھا؟ ادھورے مندر میں کسی مورتی میں ’پران‘ ڈالنے کا عمل ہندو ’ریتی رواج‘ کے مطابق ہے یا خلاف؟ ان سوالات پر نہ صرف رام بھکت بلکہ عام ہندو بھی دو حصوں میں بنٹے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کوئی سائنٹفک جواب نہیں ہو سکتا۔ خاص طور سے شنکراچاریوں کے کسی اعتراض کا کوئی جواب نہ تو بی جے پی کے پاس ہے اور نہ ہی رام مندر ٹرسٹ کے پاس۔ کیونکہ وہ اسے نہ تو مذہبی ثابت کر سکتے ہیں اور نہ ہی کھل کر اس کے سیاسی ہونے کا اعتراف کر سکتے ہیں۔ اس لیے جن لوگوں کے نزدیک رام کا تعلق آستھا اورعقیدے سے ہے وہ ادھورے رام مندر کے افتتاح سے سخت ناراض ہیں اور جو عام انتخابات سے عین قبل اسے مودی جی یا بی جے پی کا ماسٹر اسٹروک سمجھ رہے ہیں وہ خوب خوش ہیں اور ان کی ہی خوشی کو میڈیا پورے ملک کی خوشی قرار دے رہا ہے۔
اس پورے عمل کو جن لوگوں کو سیاسی قرار دینے میں قباحت ہے، وہ اگر اس بات پر غور کر لیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جس مندر کے لیے پورے ملک میں تحریک چلائی گئی، بڑے بڑے ہندو سادھو سنت جس کے لیے برسوں تک لڑتے رہے، جس کی تعمیر کے لیے پورے ملک سے چندے وصول کیے گئے، اس مندر کے ’گربھ گرہ‘ میں پوجا کرنے کے لیے جو خاص 5 لوگ گئے، وہ ایک ہی پارٹی کے کیوں ہیں؟ یا وہ اگر یہ سوچ لیں کہ آخر کیا وجہ رہی کہ بغیر گنبد کے مندر میں پران پرتشٹھا کر دی گئی جبکہ ہندو رواج کے مطابق گنبد کی حیثیت اس مندر کے جسم کی سی ہوتی ہے؟ یا پران پرتشٹھا پروگرام کے دوران مودی جی کے جلسۂ عام پر ہی غور کر لیں تو وہ اس کے خالص سیاسی ہونے کی گواہی دینے لگیں گے۔ لیکن چونکہ بی جے پی کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ جاگتی آنکھوں سے کاجل چرا لیتی ہے، اس لیے کھلی آنکھوں سے یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ بی جے پی اس کے ذریعے عام انتخابات کا منظرنامہ تیار کرنا چاہتی ہے، زعفرانیت کے بہت سے دشمن بھی بھجن کیرتن کرتے ہوئے نظر آئے۔
اب چونکہ مندر کا افتتاح ہو چکا ہے، مودی جی کی حیثیت رام مندر کے معمار کے طور پر بنائی جا چکی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب آگے کیا ہوگا۔ تو اس کا جواب افتتاح کے اس پورے عمل سے پیدا ہونے والے منظرنامے سے سامنے آ جا تا ہے کہ اب ان چاروں شنکراچاریوں کو منانے یا جو نہ مانے اسے اس کی جگہ سے ہٹانے کی کوشش کی جا ئے گی جنہوں نے اس پران پرتشٹھا کو دھرم کے خلاف بتاتے ہوئے شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ اس کے لیے بہت ممکن ہے کہ مراعات وغیرہ کے دروازے بھی ان پر کھولے جائیں۔ لیکن ان شنکراچاریوں میں جیوتش پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی اویمکتیشورانند سرسوتی بھی ہیں جنہوں نے کھل کر اور سب سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ اس پورے عمل کی مخالفت کی۔ انہوں نے رام للا کی پرانی مورتی اور کاشی کوریڈور کی تعمیر کے دوران قدیم مورتیوں و مندروں کے انہدام پر بھی سوال کھڑا کیا تھا۔ انہیں ان کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ اگر یہ اپنے عہدے پر برقرار رہے تو عین ممکن ہے کہ عام انتخابات کے دوران جب بی جے پی رام مندر کو کیش کرنے کی مہم چلائے گی تو یہ اس کی مخالفت کریں۔
شنکراچاریہ اویمکتیشوارنند کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے آثار ابھی سے نظر بھی آنے لگے ہیں۔ ہوا یوں ہے کہ مندر کے افتتاح کے پروگرام میں دیگر پیٹھ کے شنکراچاریوں کو تو ضرور بلایا گیا لیکن جیوتش پیٹھ کے اویمکتیشورانند کو نہیں بلایا گیا۔ ان کو بلانا تو دور ان کو ادھو ٹھاکرے کی مانند اسپیڈ پوسٹ سے دعوت نامہ تک نہیں بھیجا گیا۔ لیکن ان کی جگہ پر ان کے ہی پیٹھ سے ایک دیگر سنت واسودیوانند کو ضرور بلایا گیا۔ یہ واسودیوانند وہ شخص ہیں جنہوں نے اویمکتیشورانند کے گرو سوامی سوروپانند سرسوتی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ نچلی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک گئے اور آخر میں ہار گئے۔ وہ خود جیوتش پیٹھ کے شنکراچاریہ بننا چاہتے تھے۔ ستمبر 2016 میں مقدمہ ہارنے کے بعد ان کا جیوتش پیٹھ کا شنکراچاریہ بننے کا دعویٰ ختم ہو گیا، لیکن رام مندر کے افتتاح کے پروگرام میں ان صاحب کو جیوتش پیٹھ کے شنکراچاریہ کے طور پر بلایا گیا۔
بی جے پی نے رام مندر کو ووٹ بینک کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے لیکن ابھی سے جو آثار پیدا ہو گئے ہیں وہ اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ یہ ہندوؤں کو ہی سیاسی طور پر تقسیم کرنے کا ایک ذریعہ بن جائے گا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ مودی جی جس وقت ایودھیا میں پران پرتشٹھا کے پروگرام میں شریک تھے، اس دوران ان کے اس عمل کی مخالفت کرنے والوں کو دیگر مندروں میں جانے تک سے روک دیا گیا؟ راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا کی قیادت کرتے ہوئے فی الوقت آسام میں ہیں، جنہیں نگاؤں ضلع میں واقع ویشنو سنت شنکر دیو کے مٹھ میں جانے سے روک دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روکنے والے افسران نے ان سے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ 3 بجے کے بعد مندر میں جا سکتے ہیں۔ بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ اس کی اس طرح کی دھاندلیوں سے ملک کی عوام آنکھیں موند لے گی تو یہ اس کی بھول ہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے بی جے پی اگر شنکراچاریوں کو منانے یا ہٹانے میں کامیاب بھی ہو گئی تو بھلا ان عام ہندوؤں کی مخالفت کا وہ کس طرح جواب دے گی جن کے اعلانیہ اعتراضات اور سوالات سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم بھرے پڑے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ رام مندر کا یہ افتتاح بی جے پی کے لیے ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ بننے والا ہے جو اس کو اقتدرا سے بے دخل کرنے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے، اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔