راہل گاندھی: یہ اِک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے!

دہلی پولیس نے راہل گاندھی کو نوٹس دے کر یہ ثابت کر دیا کہ ملک کی مظلوم و مجبور عورتیں حکومت و پولیس کے بجائے راہل گاندھی پرزیادہ اعتماد کرنے لگی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی / ٹوئٹر</p></div>

راہل گاندھی / ٹوئٹر

user

اعظم شہاب

راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ نے کانگریس ہی نہیں بلکہ مایوسی کے شکار مظلوموں و مجبوروں میں بھی اعتماد کی آس جگا دی ہے۔ کانگریس کے اعتماد کا مظاہرہ تو یاترا کے اختتام کے بعد سے ہی کیا جا رہا ہے کہ پوری پارٹی اب مدافعت کے دائرے سے نکل کر اقدام کے مرحلے میں آگئی ہے۔ بی جے پی کے ذریعے راہل گاندھی سے معافی مانگنے کے مطالبے پر اب کانگریس کے لیڈان یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ راہل گاندھی کے بیانوں کا غلط مطلب نکالا گیا یا ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، بلکہ وہ بہ بانگ دہل اب یہ کہتے ہیں کہ راہل گاندھی نے جو کہا وہ سچ کہا ہے اورمعافی مانگنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

مظلوموں و مجبوروں کے اعتماد میں بحالی کا ثبوت تو دہلی پولیس نے اپنی نوٹس سے پیش کر دیا جس کا ابتدائی جواب بھی راہل گاندھی نے دے دیا ہے۔ دہلی پولیس نے اپنی نوٹس میں راہل گاندھی سے کشمیر کے سری نگر میں دیئے اس بیان کی وضاحت طلب کی جس میں انہوں نے جنسی ہراسانی کی شکار عورتوں سے ملاقات کی روداد بیان کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ بیان بھارت جوڑو یاترا کے اختتامی دور کا ہے، اس لیے اس کی ٹائمنگ پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔


کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ عورتوں کے تحفظ کے درجنوں قوانین کے باوجود ہراسانی کی شکار عورتیں اپنا دکھ درد پولیس کے سامنے بیان کرنے کے بجائے راہل گاندھی کے پاس گئیں؟ کوئی بھی عورت کبھی اپنا دکھ درد ہر کسی سے بیان نہیں کرتی۔ وہ اسی کے سامنے اپنی پیڑا ظاہر کرتی ہے جس پر اسے اعتماد ہو کہ وہ اسے تحفظ فراہم کرے گا، یا اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دے گا۔ عورتوں میں یہ اعتماد عام طور پر ماں باپ یا بھائی بہن کے تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر عورتوں نے راہل گاندھی کے سامنے اپنے تحفظ کے اس احساس کا اظہار کیا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان عورتوں نے راہل گاندھی میں اپنا باپ، اپنا بھائی، اپنا دوست اور اپنا رازدار پایا؟

کیا عورتوں کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والے یا بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگانے والے بی جے پی کے کسی لیڈر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عورتیں ان کے سامنے بلاکسی خوف و خطر کے اپنے دل کا بوجھ اتار سکیں اور جو ان پر گزری ہے وہ ان کو سنا سکیں؟ یہ نوٹس دے کر پولیس نے خود اپنی بے اعتباری کو سرٹیفکٹ دے دیا ہے کہ جو عورتیں راہل گاندھی سے ملیں انہیں پولیس پر قطعی بھروسہ نہیں ہے۔ یہ ملک کے عدالتی و قانونی نظام پر مظلوموں و مجبوروں کی بے اعتباری کا بھی ثبوت ہے کہ جنسی ہراسانی کی شکار عورتوں نے یہ سمجھا کہ اگرکوئی انہیں انصاف دلا سکتا ہے یا ان کے حقوق کا کوئی تحفظ کر سکتا ہے تو وہ پولیس نہیں، وزیر داخلہ یا خواتین و اطفال کی وزیر نہیں بلکہ راہل گاندھی ہیں۔


یہ اعتماد صرف نعرہ لگانے یا ‘سرکشا سرکشا‘ کھیلنے نہیں پیدا ہوتا بلکہ اس کے لیے دہلی کی نربھیا کے گھر والوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہنا ہوتا ہے۔ یہ اعتماد ہاتھرس جا کر مظلومہ لڑکی کے اہلِ خانہ کی حالت زار جاننے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھروسہ کٹھوعہ کی مظلوم بچی کو انصاف دلانے کی کوشش سے حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ بی جے پی کے لوگ یہ اعتماد کلدیپ سنگھ سینگروں، چمنیانندوں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ اعتماد ہاتھرس کی مظلومہ کو رات کے اندھیرے میں نذرِ آتش کر دینے سے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کٹھوعہ کی مظلومہ بچی کے قاتلوں کو بچانے سے لوگوں کا اعتماد جیتنا چاہتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کے لوگ اب اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ وہ ان ڈھونگیوں و پاکھنڈیوں کو خوب پہچاننے لگے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میں کسی بھی پارٹی کا عورتوں و مردوں میں کوئی ایسا لیڈر ہے جو عورتوں کو اتنا بھروسہ دلا سکے کہ وہ اس کے پاس آکر بلاخوف و خطر اپنا دکھ، اپنا درد اور اپنا احساس بغیر کسی تردد کے بیان کر سکیں اور وہ لیڈر اپنے دامن سے ان کے آنسو پوچھ سکے؟ ملک کی عورتوں میں تحفظ کا یہ احساس بھارت جوڑو یاترا اور راہل گاندھی نے پیدا کیا ہے جو ایک بڑی حصولیابی ہے۔ پھر یہ سوال کہ آخر 45 دن بعد پولیس کو اس بات کی ضرورت کیونکر محسوس ہوئی کہ راہل گاندھی سے جواب طلب کیا جائے؟ تو اس کا جواب پارلیمنٹ میں حکمراں جماعت کے رویے سے مل جاتا ہے کہ کبھی راہل گاندھی سے معافی مانگنے کے مطالبے پر کارروائی ملتوی کی جارہی ہے، کبھی کانگریسی لیڈروں کا مائک بند کیا جا رہا ہے تو کبھی پورے پارلیمنٹ کا مائک ہی آف ہو جا رہا ہے۔


اس پورے ہنگامے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ راہل گاندھی و کانگریس اڈانی کے ساتھ مودی کا نام لینا چھوڑ دیں۔ لیکن حکمراں جماعت کو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ کانگریس یا راہل گاندھی کے اندر سے اب انتخابی جیت ہار کا ڈر نکل چکا ہے۔ یہی ڈر تھا جس کی بنیاد پر کانگریس کو بی جے پی دیوار سے لگا دیا کرتی تھی، لیکن اب حالت یہ ہے کہ وہ خود دیوار سے لگی جا رہی ہے۔ دہلی پولیس چونکہ براہ راست مرکزی وزیر داخلہ کے تحت آتی ہے، اس لیے بلاتردد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ نوٹس وزیر داخلہ کی ایماء پر ہی دی گئی تھی۔ کہاں تو کوشش یہ تھی کہ اس نوٹس کے بعد کانگریس مدافعت کی پوزیشن میں آ جائے گی اور کہاں حالت یہ ہو گئی ہے کہ راہل گاندھی نے اس نوٹس کا ابتدائی جواب دے کر یہ بتا دیا کہ کچھ بھی کر لیا جائے، وہ ڈرنے والے نہیں ہیں۔

اب تو کانگریس نے دہلی پولیس کے ذریعے مرکزی حکومت کی ہمت کو بھی للکار دیا ہے کہ ہمت کیسے ہوئی راہل گاندھی کے گھر میں گھسنے کی؟ اس کے علاوہ کانگریس کی جانب سے کیا جانے والا یہ ٹوئٹ بھی نہایت معنی خیز ہے جس میں گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے راہل گاندھی کی تصویر کے ساتھ یہ لکھا گیا کہ ’ساورکر سمجھا کیا؟ نام راہل گاندھی ہے‘۔ یعنی مائک بند کرنے، پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی کرنے اور نوٹس دینے سے کیا یہ سمجھا جا رہا ہے کہ راہل گاندھی ساورکر کی طرح ڈر کر معافی مانگ لیں گے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں وہ غلط ہیں کیونکہ راہل گاندھی ڈرنے والے نہیں ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ جیت ہار کا ڈر نکال کر راہل گاندھی ایک ایسے چراغ بن گئے ہیں جو پورے سنگھ پریوار اور اس کے اندھ بھکتوں کی آندھیوں پر تنہا بھاری ہے۔ غالباً ایسے ہی موقع کے لیے وسیم بریلوی کا یہ شعر ہے کہ

دعا کرو کہ سلامت رہے میری ہمت

یہ اِک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔