’مخالفت سے میری شخصیت سنورتی ہے‘

آر ایس ایس و بی جے پی کو اپنا گرو بتاکر راہل گاندھی نے بی جے پی لیڈروں کو عجیب امتحان میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ مخالفت کریں تو کیسے۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی</p></div>

راہل گاندھی

user

اعظم شہاب

راہل گاندھی نے بی جے پی و آر ایس ایس کو اپنا گرو کیا بتا دیا گویا سانپ کی دم پر کسی نے پیر رکھ دیا ہو۔ بی جے پی کے کچھ لیڈر تو اس پر یوں بلبلا اٹھے ہیں کہ گویا ان کی جائیداد پر کسی نے قبضہ کرلیا ہو۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ انہیں بولنا کیا ہے اور وہ بول کیا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما ہیں جو راہل گاندھی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ انہیں ناگپور جاکر قومی پرچم کو ’گرو دکشنا‘ دینی چاہئے، تو ہریانہ کے وزیر داخلہ انل ویج ہیں جو راہل گاندھی کو آر ایس ایس کی دیش بھکتی یاد دلا رہے ہیں۔

ویسے تو اول راہل گاندھی کے بیان میں ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں کہ بی جے پی یا کسی اور کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا۔ پھر بھی اگر کسی کو اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرنا ہی تھا تو کم از کم اسے کچھ عقل وشعور کی تو باتیں کرنی چاہئے تھیں۔ کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ جو آر ایس ایس اپنے صدر دفتر پر آزادی کے نصف صدی بعد تک قومی پرچم لہرانا گوارا نہ کرے، اس کے یہاں جاکر قومی پرچم کو گرو دکشنا دی جائے؟ اگر قومی پرچم کو گرو دکشنا دینا ہی ہے تو وہ تو لال قلعہ پر جاکر راہل گاندھی پہلے ہی دے چکے ہیں، انہیں اس کے لیے ناگپور جانے کی کیا ضرورت؟


ان مہاشے جی کے بیان کو دیکھ کر ایک بچہ بھی کہہ اٹھے گا کہ راہل گاندھی کا بیان ان کو باؤنسر گیا ہے۔ وہ یہی نہیں سمجھ سکے کہ مخالفت شخصیت کو سنوارنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے، بشرطیکہ آدمی کے اندر مخالفت کی روشنی میں خود کو سنوارنے کا جذبہ موجود ہو۔ آر ایس ایس و بی جے پی کے یہ جذبہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ وہ تو اپوزیشن کے ہی انکاری ہیں تو بھلا وہ لوگ راہل گاندھی کے اس منطقی بیان کو کیا سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ یا جو پارٹی تنقید کو آئینہ کا درجہ دیتی ہو، اس کے یہاں مخالفت کرنے والوں کو استاد ہی سمجھا جاتا ہے۔

یہی حال انل ویج کا بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر راہل گاندھی آر ایس ایس اور بی جے پی کو اپنا گرو مانتے ہیں تو ان کے ذہن میں موجود تمام غلط فہمیاں خود بخود دور ہو جانی چاہئے کیونکہ آر ایس ایس نے ہمیشہ حب الوطنی کا پیغام دیا ہے‘۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اپنے ان زریں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے موصوف نے دیش بھکتی کی تشریح نہیں کی، وگرنہ بی جے پی وسنگھ کو خود ہی اس سے اپنا پلہ جھاڑ لینا پڑتا۔ کیونکہ جب سنگھ کی دیش بھکتی کی بات نکلتی تو پھر وہ دور تک جاتی۔ پھر تحریک آزادی کا ذکر ہوتا اور چین کے دراندازی کی بھی بات نکلتی۔


کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جب آدمی اپنی آنکھوں پر جھوٹ کا پردہ ڈال لیتا ہے تو وہ آنکھ ہوکر بھی اندھا ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی آج کل بہت سے لوگ ’مودیا بند‘ کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس بیماری کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس میں موجود چیز نظر نہیں آتی ہے اور جو نہیں ہوتی ہے وہ خوب نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر اس بیماری سے متاثر ہونے والوں کو ملک کے 80 کروڑ لوگوں کی غربت نظر نہیں آتی ہے لیکن یہ ضرور نظر آجاتا ہے کہ ملک کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔ ایسے لوگوں کو ہلدوانی میں ساڑھے چار ہزار لوگوں کا بے گھر ہونا نظر نہیں آتا ہے لیکن پردھان سیوک کے وعدے کے مطابق 2022 تک ہر کسی کے پاس پکا گھر ہونا ضرور نظر آ جاتا ہے۔

آر ایس ایس و بی جے پی کو اپنا گرو بتاکر راہل گاندھی نے دراصل بی جے پی لیڈروں کو عجیب امتحان میں مبتلا کر دیا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ مخالفت کریں تو بھلا کس طرح اور اعتراض کریں تو پھر کس بات پر۔ کیونکہ لوگ راہل گاندھی اور ان کی بھارت جوڑو یاترا پر اعتراض کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے وہ جس بات پر بھی اعتراض کرتے ہیں، وہ ان کی ہی ہزیمت کا سبب بن جاتا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران 9 مرتبہ پریس کانفرنس کی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے 9 باتوں پر ابھی تک اعتراض بھی کیا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ کانگریس کی جانب سے ان 9 اعتراضات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا ہے۔


راہل گاندھی نے اپنے گرو والے بیان سے دراصل آر ایس ایس و بی جے پی کو ہی آئینہ دکھایا ہے۔ انہوں نے اس کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ اپوزیشن کے سوالوں کو درکنار کرنے اور اس سے فرار ہونے کے بجائے، اس کو سننے اور اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں تو اس سے ان کا ہی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بتایا ہے کہ ایک کانگریس ہے جو سنگھ کے اعتراضات کی روشنی میں خود کو سنوار رہی ہے تو دوسری جانب سنگھ کے لوگ ہیں جنہیں سوال تک برداشت نہیں ہوتے ہیں اور یہ چیز کسی بھی صحت مند سماج کے لیے حد درجہ نقصاندہ ہوسکتی ہے۔ شاید ایسے ہی موقع کے لیے بشیر بدر نے یہ مشہور شعر کہا تھا

مخالفت سے میری شخصیت سنورتی ہے

میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔