’سو سنار کی تو ایک لوہار کی‘!
کانگریس و راہل گاندھی کو بدنام کرنے کے لئے بی جے پی کی ہر کوشش اور اس کے ہزاروں کروڑ روپئے کے بجٹ پر راہل گاندھی کی ایک ایک تقریر بھاری پڑ رہی ہے۔
یہ ہمارا تجزیہ نہیں ہے، بلکہ عام تاثر ہے کہ لال قلعہ سے راہل گاندھی کی 27 منٹ کی تقریر نے پردھان سیوک کے 8 سالہ بھاشنوں کی ہوا نکال دی ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہی ہیں وہ ملک کے عوام کے دلوں کی باتیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر راہل گاندھی کی تقریر کو سننے اور شیئر کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ قومی میڈیا میں تو اس کا کوئی خاص تذکرہ نہیں ہے، لیکن واٹس ایپ، یوٹیوب و ٹوئٹر پر اس نے خاصی دھوم مچا رکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : لال لال آنکھوں پر کالا کالاچشمہ!
راہل گاندھی کی اس تقریر نے بی جے پی کے غبارے میں اسی طرح سوراخ کر دیا ہے جس طرح راہل گاندھی کی شبیہ کو بگاڑنے کے لیے بی جے پی کے ہزاروں کروڑ روپئے کو ان کی پدیاترا نے سواہا کر دیا ہے۔ اب بی جے پی کے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ راہل گاندھی کی مخالفت کرے تو کیسے کرے۔ اگر وہ کورونا کے حوالے سے تنقید کرتی ہے تو اس میں یہ اعتراف بھی شامل ہے کہ راہل گاندھی کے ساتھ عوام کا ایک جم غفیر بھی چل رہا ہے۔ اور اگر وہ راہل گاندھی کی تقریر پر کوئی اعتراض کرتی ہے تو گویا یہ باتیں بی جے پی کو لگی ہیں اور جو اتفاق سے بالکل سچ بھی ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جب گجرات انتخابات کا اعلان ہوا تھا تو ایک مشہور یوٹیوبر نے ٹوئٹر پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کی طرح گجرات میں چناؤ بھی ’دو چرنوں‘ میں ہوں گے‘۔ بھگت رام نامی یوٹیوبر کے اس ایک جملے کے تبصرے نے بی جے پی اور الیکشن کمیشن کی قلعی اتار دی تھی۔ بھگت رام نے گویا سانپ کی دم پر پیر رکھ دیا تھا۔ اس پر ٹرول گینگ ابل پڑا تھا۔ اس گینگ کا اعتراض ’دو چرنوں‘ پر تھا، لیکن مصیبت یہ تھی کہ چناؤ تو دو چرنوں میں تھا لیکن ’چرن‘ چار تھے۔ اس لیے ٹرول گینگ کا غصہ یوٹیوبر کے خلاف لعن طعن بکنے سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔
راہل گاندھی کی تقریر کے خلاف بھی ٹرول گینگ میدان میں کود پڑا ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ اسے کچھ مل نہیں رہا ہے، اس لیے وہ کورونا کا بہانہ بناکر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ لیکن بالائی منزل سے خالی اس گینگ کی سمجھ میں اتنی سی بات بھی نہیں آرہی ہے کہ اپنی اندھ بھکتی سے وہ اپنی ہی مٹی پلید کر رہے ہیں، کیونکہ ان کی حکومت نے ابھی تک عوامی سطح پر کورونا سے متعلق کوئی گائیڈ لائن ہی نہیں بنائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کورونا کے پروٹوکول کا حوالہ دے کر جو لوگ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا پر تنقید کر رہے ہیں وہ خود ہی کسی پروٹوکول کی پابندی نہیں کر رہے ہیں۔
اپنی تقریر کے دوران راہل گاندھی نے میڈیا کو خاص طور سے عزت بخشی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے لگام لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے مالکان کی مرضی کے خلاف نہیں جاسکتے۔ انہوں نے میڈیا کے اس سوال کا بھی ذکر کیا کہ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ ’راہل جی آپ کو سردی نہیں لگتی ہے کیا؟ یہی سوال وہ کسانوں سے نہیں پوچھتے‘۔ یہ بالکل اسی طرح کا سوال ہے کہ آپ جیب میں بٹوا رکھتے ہیں کہ نہیں یا آپ کوئی ٹانک وغیرہ لیتے ہیں کیا؟ ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے سوالات میڈیا کو زیب نہیں دیتے، اس لیے وہاں پر موجود میڈیا اپنی بغلیں جھانکنے کے علاوہ کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرسکا۔
دہلی میں دانت بجنے والی ٹھنڈ پڑ رہی ہے اور اسی ٹھنڈ میں راہل گاندھی نے مہاتماگاندھی، پنڈت جواہرلال نہرو، اپنی دادی اندرگاندھی و والد راجیوگاندھی کے ساتھ آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کی سمادھیوں پر جاکر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس دروان راہل گاندھی اپنی وہی راویتی ٹی شرٹ ہی پہنے رہے۔ کمال کی بات یہ رہی کہ لال قلعہ پر کان ایٹھے جانے سے ڈرا سہما ہوا میڈیا اس موقع پر اپنی ہی سردی بھول گیا۔ لیکن اپنی موجودگی کا احساس تو کرانا ہی تھا، اس لیے اس نے گورو پادھی کے استعفے کو موضوع بنا دیا۔
گورو پادھی نے کسی موقع پر اٹل بہاری واجپئی کو انگریزوں کی مخبری کرنے والے گروہ کا حصہ قرار دیا تھا۔ لیکن انہیں کانگریس سے نکالنے یا معافی مانگنے کا مطالبہ کرنے والوں کی سمجھ دانی میں اتنی سی بات نہیں سماسکی کہ کسی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ اس کے تمام عمل کو حق بجانب قرار دیا جائے۔ اختلاف کے باوجود عزت دی جاسکتی ہے اور عزت واحترام کے ساتھ بھی مخالفت کی جاتی ہے۔ بی جے پی کے اشارے پر گورو پادھی کے معاملے کو اچھالنے والوں کا اس روایت سے چونکہ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، اس لیے ان سے اس کی پاسداری کی توقع ہی فضول ہے۔
راہل گاندھی نے اپنی لال قلعہ کی تقریر سے صرف دلّی والوں کا ہی دل نہیں جیتا بلکہ پورے ملک کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ ان کی اس تنقید کا تو مودی حکومت و بی جے پی کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہے کہ مودی جی کی لگام سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے۔ راہل گاندھی کی اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں ہے کہ میڈیا رات دن ہند ومسلم کرتا رہتا ہے جبکہ یہ ملک کی سچائی نہیں ہے۔ اگر بی جے پی یا قومی میڈیا اس کا انکار کرتے ہیں تو گویا وہ اپنے ہاتھوں اپنی ہزیمت کا سامان کریں گے۔ ایسی صورت میں یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ اگر مودی حکومت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مجبور نہیں ہے تو ملک کے وسائل پر دوچار سرمایہ داروں کا ہی قبضہ کیوں ہے؟
راہل گاندھی کی اس پدیاترا کا 2024 پر کیا اثر ہوتا ہے؟ اس سے قطع نظر اب تو سوال یہ پیدا ہونے لگا ہے کہ 2024 اگر مودی حکومت موجود رہی تو ملک کا کیا ہوگا؟ راہل گاندھی اپنی پدیاترا و تقاریر سے اس حقیقت کو عوام کے سامنے اجاگر کرتے جا رہے ہیں اور عوام کا زبردست تعاون اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ حقیقت عوام کو اپیل بھی کر رہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کانگریس و راہل گاندھی کو بدنام کرنے کے لئے بی جے پی کی ہر کوشش اور اس کے ہزاروں کروڑ روپئے کے بجٹ پر راہل گاندھی کی ایک ایک تقریر بھاری پڑ رہی ہے۔ اسے کہتے ہیں سو سونار کی تو ایک لوہار کی۔
(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔