لوک سبھا انتخاب 2024: این ڈی اے کو مہاراشٹر سے مل سکتی ہے ’بری خبر‘... نوین کمار

بی جے پی نے شیوسینا اور این سی پی میں پھوٹ پیدا کر اس کے ایک-ایک گروپ کے ساتھ ’مہایوتی‘ ضرور بنا لی، لیکن ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار نے جس طرح سے انتخابی تشہیر کی انھیں عوام کی ہمدردی ملی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>دیویندر فڑنویس، ایکناتھ شندو، اجیت پوار / ٹوئٹر /&nbsp;<em>@MahaDGIPR</em></p></div>

دیویندر فڑنویس، ایکناتھ شندو، اجیت پوار / ٹوئٹر /@MahaDGIPR

user

نوین کمار

مہاراشٹر میں لوک سبھا انتخاب کے لیے آخری مرحلہ کی 13 سیٹوں پر ووٹنگ 20 مئی کو ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی مہاراشٹر کی سبھی 48 لوک سبھا سیٹوں پر انتخابی عمل انجام پا گیا۔ اب اس ریاست پر سب کی نظریں مرکوز ہیں۔ ایسا اس لیے کیونکہ یہ ریاست مودی کے وزیر اعظم بننے اور نہ بننے میں اہم کردار نبھانے والا ہے۔ سیٹوں کی بنیاد پر یہ اتر پردیش کے بعد ملک کی دوسری سب سے بڑی ریاست ہے۔ اگر اس ریاست میں این ڈی اے کی کشتی لڑکھڑاتی ہے تو مودی کا ’400 پار‘ والا ایکویشن بھی بگڑ سکتا ہے۔ اس لیے مودی نے یہاں 18 ریلیاں کیں۔ انھوں نے ممبئی کے گھاٹ کوپر میں روڈ شو بھی کیا اور اس دوران وہ غیر حساس تھے۔ اسی علاقے میں روڈ شو کے تین دن پہلے ہی ہورڈنگ حادثہ میں 14 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور مودی نے ان کے تئیں ہمدردی ظاہر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ممبئیکرس نے اس پر تلخ رد عمل کا اظہار کیا تھا۔

بی جے پی نے مہاراشٹر کی سیاست میں ایک نیا تجربہ بھی کیا ہے۔ اس نے شیوسینا اور این سی پی میں پھوٹ ڈال کر اس کے الگ گروپوں کے ساتھ ’مہایوتی‘ بنا لی۔ لیکن ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار نے جس طرح سے انتخابی تشہیر کی اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کی، اس سے تو لگتا ہے کہ ریاست کے ووٹرس یہ ثابت کر دیں گے کہ ادھو کی شیوسینا اور پوار کی این سی پی ہی اصلی ہے۔ عوام نے ان کے حق میں اپنی رائے دے دی تو الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سوال اٹھ سکتے ہیں، جس نے ایکناتھ شندے کو انتخابی نشان کے ساتھ شیوسینا اور اجیت پوار کو بھی انتخابی نشان کے ساتھ این سی پی سونپ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا مشتبہ کردار آخری مرحلہ کی ووٹنگ کے دوران بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ ادھو نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی کے دباؤ میں الیکشن کمیشن کے اشارے پر ان پولنگ مراکز پر دھیمی رفتار سے کم ووٹنگ کرانے کی کوشش کی گئی جہاں پر انڈیا اتحاد یا مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کا گراف بڑھنے والا تھا۔ ویسے، پوری ریاست میں انتخاب کے دوران دولت اور طاقت کا بھی کھیل چلا ہے۔ اس کے ساتھ اپنے لیے ووٹ مانگنے والے مودی کی بے چینی کو سمجھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے پوار کو ’بھٹکتی آتما‘ کہا اور ادھو کو بال ٹھاکرے کا نقلی بیٹا۔ کمزور این ڈی اے کو مضبوط کرنے کے لیے مودی کو ایم این ایس (مہاراشٹر نو نرمان سینا) کے راج ٹھاکرے کا سہارا لینا پڑا۔ باوجود اس کے مہاراشٹر کو لے کر بی جے پی کی فکر بڑھی ہوئی ہے۔ دوسری طرف انڈیا اتحاد محسوس کر رہا ہے کہ عوام تبدیلی کے موڈ میں ہے۔


سیاسی پنڈت عوام کے موڈ کو الگ الگ طرح سے پڑھ رہے ہیں۔ میکس مہاراشٹر چینل کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور سیاسی تجزیہ نگار منوج بھویر کا کہنا ہے کہ اب سبھی کی نظریں مہاراشٹر پر ہیں۔ پہلے بھی تھیں، لیکن پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد یہ غور و خوض ہو رہا ہے کہ مہاراشٹر سے کس کو فائدہ ہوگا۔ این ڈی اے کو یا انڈیا-ایم وی اے کو۔ اگر ہم ووٹنگ کے فیصد پر نظر ڈالیں تو مہاراشٹر میں کم ووٹنگ ہوئی ہے۔ میری نظر میں جمہوریت میں کم ووٹنگ ہونا خطرناک ہے۔ لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ووٹنگ زیادہ ہوئی ہے۔ وہاں ووٹرس میں جوش دیکھنے کو ملا ہے۔ اس بار ممبئی میں بھی ووٹرس پُرجوش دکھائی دیے، لیکن ان کی حوصلہ شکنی کے لیے پولنگ کا عمل سست کر دیا گیا تھا۔ اس پر ادھو ٹھاکرے نے الیکشن کمیشن کو گھیرنے کی کوشش کی۔ ان کا ایسا ماننا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کسی دباؤ میں ایسا کیا ہے تاکہ ٹھاکرے گروپ کے امیدوار کو کم ووٹ مل سکے۔ حالانکہ بی جے پی لیڈر دیویندر فڑنویس نے دفاع میں کہا کہ انھوں نے دھیمی ووٹنگ کی جانکاری سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو دی تھی۔ ان سبھی سرگرمیوں کو دیکھ کر تو یہی احساس ہوتا ہے کہ برسراقتدار طبقہ اپوزیشن کی پالیسی سے ڈرا ہوا ہے۔ بقول سیاسی تجزیہ نگار ابھمنیو شیتولے این ڈی اے کو سب سے بڑا جھٹکا مہاراشٹر سے لگے گا۔ اس کے پیچھے اپوزیشن کی پالیسی ہے۔ دوسری طرف شیوسینا اور این سی پی میں تقسیم کے بعد ادھو اور شرد کے ساتھ لوگوں کی جس طرح کی ہمدردی ہے، اس سے این ڈی اے پریشان ہو رہا ہے۔ اس کے توڑ کے لیے این ڈی اے کو ممبئی سے لے کر پورے مہاراشٹر میں جس طرح سے انتخابی مشینری کے مینجمنٹ کی حمایت ملی ہے، اس کے بعد ہم یہ کہنے کی حالت میں نہیں ہیں کہ اس بار مہاراشٹر میں بہت ہی غیر جانبدار انتخاب ہوا ہے۔ باوجود اس کے عوام نے بھی اپنے من کی بات کو ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس لیے نتائج جو آئیں گے وہ یقیناً حیران کر سکتے ہیں۔ لیکن سیاسی تجزیہ نگار راجندر تھوراٹ کی رائے بالکل مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر مودی کے ساتھ جانے والا نہیں ہے، کیونکہ یہاں مودی کو پسند کرنے والے کم لوگ ہیں۔ مودی کے تئیں ناراضگی اس لیے بھی ہے کہ بی جے پی نے بالاصاحب ٹھاکرے کی شیوسینا اور شرد پوار کی این سی پی کو توڑا ہے۔ پوار کی پارٹی کے ساتھ ساتھ ان کے کنبہ میں بھی ٹوٹ پیدا کر دیا گیا ہے۔ اس لیے ووٹنگ میں ادھو اور پوار کے ساتھ ہمدردی نے کام کیا ہے۔ اس کا فائدہ انڈیا اتحاد کو ہوگا۔ ویسے کہا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے دباؤ میں این ڈی اے کے لیے کام کیا ہے۔ یہ آخری مرحلہ میں ووٹنگ کی رفتار سست کر دینے سے بھی ظاہر ہو رہا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار بھویر کہتے ہیں کہ بی جے پی نے جب شندے گروپ اور اجیت گروپ کو این ڈی اے-مہایوتی میں شامل کر لیا تو مہاراشٹر میں بی جے پی مضبوط حالت میں تھی۔ لیکن جب ادھو اور پوار نے ریلیاں کیں تو ان سے لوگ جڑنے لگے، یہ مان کر کہ یہ لوگ کمزور ہیں اور ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ان کے ساتھ ہمدردی نے اس طرح سے بھی کام کیا کہ 80 سال کی عمر پار کر چکے شرد پوار تنہا میدان میں اترے ہوئے تھے۔ ادھو کے پاس سخت گیر ہندوتوا نہیں ہے اور انھوں نے نہ صرف مسلمان بلکہ قبائلی اور دلتوں کو بھی ایک بھروسہ دیا ہے۔ ادھو کے پاس روایتی شیو سینک بھی ہیں۔ بھویر کے ساتھ سیاسی تجزیہ نگار تھوراٹ بھی مانتے ہیں کہ جس ادھو کو بی جے پی کمزور مانتی تھی، وہی اب بی جے پی کو جواب دینے کے لیے چیلنج کی شکل میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ ادھو اور پوار نے اپنی ریلیوں سے لوگوں کو جوڑا۔ لیکن مودی کے ساتھ یہ حالت دکھائی نہیں دی۔ ممبئی کے گھاٹ کوپر میں کیا گیا روڈ شو ان کے لیے منفی ہی ثابت ہوتا نظر آیا۔ کیونکہ اسی علاقے میں ہورڈنگ حادثہ سے 14 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور مودی نے اس پر ہمدردی بھی ظاہر نہیں کی۔ جبکہ وہ مغربی بنگال میں جاتے ہیں تو ممتا بنرجی کو گھیرنے کے لیے کسی حادثہ پر اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں۔ مودی نے مہاراشٹر میں جہاں بھی ریلی کی وہاں بی جے پی کو نقصان دکھائی دے رہا ہے۔ بھویر کا ماننا ہے کہ مہاراشٹر میں مودی اور این ڈی اے بغیر ایشوز کے دکھائی دیے۔ رام مندر کا ایشو چلا نہیں۔ دوسری طرف انڈیا اتحاد نے جمہوریت اور آئین بچاؤ، بدعنوانی، مہنگائی، بے روزگاری اور کسانوں کے ایشوز کو اچھی طرح اٹھایا۔ شندے گروپ اور اجیت گروپ کے داغدار لیڈران نے الزامات و جوابی الزامات کا راستہ اختیار کیا۔ تھورات کا کہنا ہے کہ ممبئی میں ترقیات کے ایشو سے مودی بھی دور نظر آئے۔ اس لیے ناسک، دھولے میں پیاز کے کسانوں نے مخالفت کی۔ مہاراشٹر میں بی جے پی نے 45 سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا ہے۔ لیکن سیاسی تجزیہ نگار بھویر کا ماننا ہے کہ ادھو ممبئی کی اپنی سیٹوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور انڈیا اتحاد کو 18 سے 20 سیٹیں مل سکتی ہیں، جبکہ شندے گروپ کو ایک سیٹ مل سکتی ہے اور اجیت گروپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ بی جے پی کو 25-24 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ تھورات کا دعویٰ ہے کہ انڈیا اتحاد کو 35-30 سیٹیں مل سکتی ہیں اور شندے گروپ اپنے بیٹے کی سیٹ بچا پائے گا۔ بی جے پی کو کافی نقصان ہوگا۔ اس انتخاب میں ووٹرس یہ واضح کر دیں گے کہ اصلی اور نقلی شیوسینا کس کی ہے۔ لیکن جس طرح سے سیاسی پنڈت بتا رہے ہیں، یہ امکان زیادہ ہے کہ ادھو کی شیوسینا اور پوار کی این سی پی ہی اصلی ثابت ہونے والی ہے۔ اس انتخاب کے نتائج کا اثر ریاست کے آئندہ اسمبلی انتخاب پر بھی پڑنے والا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ اسمبلی کے انتخاب 5 مہینے کے اندر ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔