بھارت جڑنے لگا ہے!... اعظم شہاب
دوماہ قبل راہل گاندھی نے بھارت جوڑنے کی جس مہم کی شروعات کی تھی اس نےاپنے نصف پڑاؤ پر پہنچنے سے قبل ہی بھارت کو جوڑنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
دو ماہ قبل بھلا یہ کون جانتا تھا کہ ایک ایسا شخص جسے بودا ثابت کرنے پر ملک کا قومی میڈیا اپنی پوری قوت صرف کیے دے رہا ہے، وہی ایک دن ملک کا سب سے بڑا سیاسی برانڈ بن جائے گا؟ شاید یہ بھی کوئی نہیں جانتا رہا ہوگا کہ جس شخص کو نیچا دکھانے کے لیے ملک کی سب سے مالدار پارٹی اپنے خزانے کا منھ کھولے ہوئے ہے، جس کے تحت کام کرنے والی ایجنسیاں دن رات اس سے وابستہ لوگوں کو ہراساں کرنے میں لگی ہوئی ہیں، اس کا شروع کیا گیا ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کا پیدل سفر ملک کی سیاسی فضا کو یکسر تبدیل کردے گا؟ جی ہاں! بالکل ایسا ہی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا شروع ہونے سے قبل اس قدر زبردست عوامی پذیرائی کا اندازہ غالباً کسی کو نہیں رہا ہوگا۔ اس یاترا نے یہی نہیں کہ صرف کانگریس میں ایک نئی روح پھونک دی ہے بلکہ بی جے پی و آر ایس ایس کے نظریات کی مخالفت لوگوں کو ایک مضبوط اور بڑا پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے۔ ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں سے انہیں اپنی کامیابی کا یقین نہایت پختہ ہوگیا ہے۔
راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا فی الوقت مہاراشٹر میں اپنے درمیانی پڑاؤ میں ہے۔ تلنگانہ سے نکل کر 7 نومبر کو یہ یاترا مہاراشٹر میں داخل ہوئی تھی اور 20 نومبرتک 380 کلومیٹر کا سفرطے کرکے مدھیہ پردیش میں داخل ہوجائے گی۔ تامل ناڈو، کیرل، کرناٹک، آندھرا وتلنگانہ میں اس یاترا کو ملنے والی زبردست عوامی پذیرائی کے تعلق سے یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ یہاں آر ایس ایس و بی جے پی کا زیادہ اثر نہیں ہے، اس لیے اس نے لوگوں کو اپیل کیا۔ لیکن مہاراشٹر جو آر ایس ایس کی اپنی ریاست ہے، جہاں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے، وہاں یہ منظر دیکھا جانا کہ لوگ کئی کئی گھنٹے محض اس لیے سڑکوں کے کنارے کھڑے رہیں کہ راہل گاندھی کی انہیں ایک جھلک نظر آجائے؟ اپنے آپ میں حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ہی نہایت خوشگوار بھی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ریاستیں جہاں بی جے پی کا اثر ہے، وہاں کے لوگ بی جے پی کے خلاف ایک متبادل چاہتے ہیں اور یہ متبادل انہیں کانگریس یا راہل گاندھی کی شکل میں نظر آنے لگا ہے۔
اس یاترا کی دیگر اثرانگیزیوں کے ساتھ سب سے بڑا اثر یہ ہوا ہے کہ آر ایس ایس و بی جے پی کی نظریات سے اختلاف کرنے والے تمام لوگوں کو اس نے ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے۔ پھر چاہے وہ کسی بھی نظریات کو ماننے والے ہوں۔ سبھی کو ایک امید کی کرن نظر آگئی ہے کہ اگر کوئی بی جے پی و آر ایس ایس کے فاشزم کو شکست دے سکتا ہے تو وہ کانگریس ہی ہے۔ کانگریس کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ بہت سے کانگریسی لیڈروں کے بی جے پی میں شامل ہونے اور انتخابی سیاست میں ناکامی کی وجہ سے عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ کانگریس بی جے پی کا مقابلہ کسی طور نہیں کرسکتی۔ اس تاثر کو ہمارے قومی میڈیا نے مزید مضبوط کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کے تئیں لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوا۔ یہی وجہ رہی کہ بھارت جوڑو یاترا کے شروع ہونے سے قبل یہ آواز سنائی دی تھی کہ کانگریس کو بھارت جوڑنے سے قبل کانگریس کو جوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن آج دو ماہ بعد کانگریس جوڑنے کا مشورہ دینے والے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کانگریس ہی ہے جو اس ملک میں بی جے پی کا متبادل ہوسکتی ہے۔
مہاراشٹر تحریکوں کی ریاست رہی ہے اور یہ تحریکیں کسی نہ کسی طور پر اشتراکیت سے متاثر رہی ہیں۔ آج بھی مہاراشٹر بھر میں اس طرح کی درجنوں تحریکیں موجود ہیں جو علانیہ طور پر بی جے پی و آرایس ایس کی نظریات کی مخالف ہیں۔ اس طرح کی تحریکوں سے وابستہ لوگ بڑی تعداد میں راہل گاندھی کی اس بھارت جوڑو یاترا میں شریک ہو رہے ہیں۔ کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں جو شدید بیمار اور عمردراز ہونے کے باوجود راہل گاندھی کے ساتھ پیدل چل رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جو انہیں اس قدر مشقت پر آمادہ کئے ہوئے ہے؟ تو اس کا جواب امید کی وہ کرن ہی ہے جو انہیں یہ پتہ دے رہی ہے کہ نہ صرف مہاراشٹر بلکہ ملکی سطح پر اب ایک ایسی مضبوط بنیاد انہیں حاصل ہوگئی ہے جہاں سے وہ فاشزم کو شکت دے سکتے ہیں اور وہ بنیاد کانگریس ہے۔ دوسری بات یہ کہ کانگریس کے علاوہ اور کسی پارٹی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ بھارت جوڑ سکے۔ وہ تمام اپوزیشن لیڈران جو کسی نہ کسی طور پر کانگریس کے بالمقابل نظر آتے ہیں، وہ اگر بہت زیادہ کچھ کرسکتے ہیں تو صرف یہ کہ اپنی ریاستوں کی حد تک بی جے پی کے خلاف ایک ماحول بنا سکتے ہیں۔ ملکی سطح پر نہ ان کی باتوں کو کوئی تسلیم کرے گا اور نہ ہی ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ملک کو اپنے طور پر متحد کرسکیں۔
لیکن راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے راہل گاندھی کو ملکی سطح پر ایک ایسا برانڈ بنا دیا ہے جو 2024 کے عام انتخابات میں ملک کا منظرنامہ تبدیل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں سے یہ بھارت جوڑو یاترا گزر رہی ہے، اپنے پیچھے روشنی کی ایک ایسی لکیر چھوڑتی جا رہی ہے جو عوام کے امید کی شمع کو روشن کر رہی ہے۔ ایسی ہی امید 2014 میں پردھان سیوک نے بھی دلائی تھی، لیکن چونکہ وہ جھوٹ پر مبنی تھی اس لیے محض 8 سالوں میں لوگوں کا اس سے موہ بھنگ ہوگیا۔ راہل گاندھی عوام کو جو امید دلا رہے ہیں وہ کسی وعدے کی بنیاد پر نہیں ہے اور نہ ہی کسی خواب کی بنیاد پر ہے۔ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ چلیے ہم آپ کے مسائل حل کریں گے یا آپ کے اچھے دن آجائیں گے۔ بلکہ وہ صرف یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اپنے اندر سے ڈرنکال دیجئے اور نفرت کو ختم کر دیجئے۔ وہ لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ اپنے اور اپنے بچوں کا مستقبل خود آپ محفوظ کیجئے۔ وہ ملک کی معاشی صورت حال پر بات کر رہے ہیں۔ وہ لوگوں کو درپیش مسائل سے واقفیت حاصل کر رہے ہیں اور اس پر اظہارِ افسوس کر رہے ہیں۔ وہ بیروزگاری پر سوال اٹھانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کا یہ پیغام ملک کے تمام لوگوں کے دلوں کی آواز بنتا جا رہا ہے۔ اس لیے یہ کہنے میں اب کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ راہل گاندھی نے دو ماہ قبل بھارت کو جوڑنے کی جس مہم کی شروعات کی تھی، وہ اپنے نصف پڑاؤ پر پہنچے سے قبل ہی بھارت کو جوڑنے میں کامیابی حاصل کرلی اور یہ کامیابی کانگریس کے ریوائیول سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔