استعفیٰ کے بعد بھی شرد پوار کے ہاتھ میں ہی کیوں نظر آ رہی این سی پی کی کمان... سجاتا آنندن
شرد پوار کے استعفیٰ کا اعلان تو ہو گیا، لیکن پوری پکچر ابھی باقی ہے، اور ان کے حامی جانتے ہیں کہ ابھی ان کے پاس اتنے پینترے باقی ہیں جن کے سامنے آنے کے بعد ہی اس سیاسی منظرنامہ سے پردہ اٹھے گا۔
جو لوگ شرد پوار کو ان کی عمر اور صحت کا حوالہ دے کر خارج کر رہے تھے، کہ انھیں اب سیاست سے سبکدوش ہو جانا چاہیے، انھیں بھی یہ دیکھ کر حیرانی تو ہوئی ہوگی کہ اس بزرگ لیڈر میں بہت سیاسی جان باقی ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ان کے بھتیجے اجیت پوار نے ایک طرح سے شرد پوار کی ہی طرف اشارہ کیا تھا کہ بہت سے لوگ لگاتار سرگرم سیاست میں بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انھوں نے شرد پوار کا نام نہیں لیا تھا، لیکن یہ ضرور کہا تھا کہ ’’کبھی کبھی بزرگوں کو دو قدم پیچھے ہٹ کر نوجوانوں کے لیے راستہ چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
اس بیان کو شرد پوار کے خلاف براہ راست تبصرہ کے طور پر دیکھا گیا۔ ویسے بھی اجیت پوار طویل مدت سے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) پر اپنی گرفت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پارٹی میں وہی نمبر وَن رہیں۔ لیکن اگلے ہی دن یعنی منگل کو ہی 2017 میں شائع اپنی سوانح عمری کے ’ری لانچ‘ میں شرد پوار نے اپنے اعلان سے سیاسی ہلچل پیدا کر دیا اور ثابت کر دیا کہ اپنے سیاسی مخالفین کو کیسے خاموش کرایا جاتا ہے، بھلے ہی وہ ان کے اپنے خاندان سے ہی کیوں نہ ہوں۔
این سی پی صدر عہدہ چھوڑنے کے اعلان کے بعد شرد پورا کی حمایت میں جس طرح کا ماحول نظر آیا، اس کا تصور شاید اجیت پوار نے نہیں کیا ہوگا۔ پروگرام میں آئے لوگ شرد پوار کے اعلان سے حیران و ششدر تھے اور انھوں نے اسی اسٹیج سے شرد پوار کو اپنا فیصلہ بدلنے کی جذباتی گزارش کی۔ اس سے ایک اشارہ تو صاف ہو گیا کہ اگر شرد پوار نے فیصلہ نہیں بدلا تو پورے مہاراشٹر میں سیاسی اتھل پتھل مچ جائے گی، کیونکہ شرد پوار کے بغیر این سی پی کو کثیر تعداد میں ووٹوں کا اسی طرح نقصان ہونے کا اندیشہ ہے جس طرح گاندھی فیملی کے بغیر ایک وقت کانگریس کو ہوا تھا۔
آنکھوں میں آنسو بھرے کارکنان اور این سی پی لیڈران شرد پوار کے پیروں میں گر پڑے تھے اور رُندھے گلے سے ان سے فیصلہ بدلنے کی گزارش کر رہے تھے، لیکن فی الحال مہاراشٹر کی سیاست کے سردار خاموش ہی نظر آئے۔ کل ہی، یعنی یکم مئی کو ہی شرد پوار کو سرگرم سیاست میں 63 سال پورے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بس اب تو انھیں سبکدوش ہو ہی جانا چاہیے۔ لیکن ان کے حامی جس طرح اٹھ کھڑے ہوئے، انھوں نے صاف کر دیا کہ وہ صدر عہدہ چھوڑ رہے ہیں، لیکن سیاست سے سبکدوش نہیں ہو رہے ہیں، اور پہلے کی ہی طرح سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
حالانکہ اس اعلان سے قیادت میں کوئی تبدیلی نہ چاہنے والے حامیوں کو کچھ تو دلاسہ ملا، لیکن اجیت پوار اور ان کے حامیوں کو اس سے کچھ مایوسی ضرور ہوئی ہوگی، کیونکہ پارٹی معاملوں میں شرد پوار کے نزدیکی لوگوں کی کمیٹی کا پورا دخل رہے گا۔ اس کمیٹی میں شرد پوار کا دایاں ہاتھ مانے جانے والے پرفل پٹیل، پارٹی کے مہاراشٹر چیف جینت پاٹل بھی ہوں گے۔ یہی کمیٹی طے کرے گی کہ این سی پی کا اگلا چیف کون ہوگا، یا شرد پوار کو ہی حامیوں کی گزارش پر منا لیا جائے گا۔
یہ ایک طرح سے ظاہر ہے کہ نہ تو پرفل پٹیل، جینت پاٹل یا کمیٹی کے دیگر رکن چھگن بھجبل ہی اجیت پوار کے کوئی خاص شیدائی ہیں۔ کئی بار تو ان لوگوں نے اجیت پوار کی کھل کر مخالفت بھی کی ہے۔ ایسے میں کیا مانا جائے کہ این سی پی میں تقسیم ممکن ہے! کیونکہ خبر تو یہی گرم ہے کہ پارٹی کا ایک گروپ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے حق میں ہے (ہو سکتا ہے اس قدم کو پرفل پٹیل کی حمایت مل جائے)، لیکن جینت پاٹل، چھگن بھجبل، جتیندر آہواڈ اور انل دیشمکھ وغیرہ کا دوسرا گروپ بھگوا پارٹی کے ساتھ کسی قسم کا رشتہ نہیں رکھنا چاہتا۔
سیاسی تجزیہ نگار بھی حیران ہیں اور مانتے ہیں کہ پوار نے ایک طرح سے اپنی طاقت کا احساس کرایا ہے اور پارٹی و کنبہ پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط کر لیا ہے۔ پوار کے سامنے بال ٹھاکرے کی مثال ہے، جنھوں نے اسی طرح کے خاندانی ناراضگی کے بعد شیوسینا چیف کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا، لیکن اپنے حامیوں کی جذباتی گزارش کے بعد استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔ شرد پوار کے نزدیک بیٹھے جینت پاٹل نے جس طرح آنکھوں میں آنسو بھر کر بھرے گلے سے ان سے واپسی کی اپیل کی، وہ نظارہ ایک الگ ہی ماحول بنا گیا اور یہاں تک کہ پارٹی کے نوجوان کارکن خود سوزی تک کی دھمکی دینے لگے۔ یہ سبھی شرد پوار کی واپسی کے لیے ضروری اسباب بن سکتے ہیں۔
پوار کے استعفیٰ کے بعد بالکل اسی طرح کا جذباتی ماحول بن گیا جب انھیں ای ڈی نے نوٹس دے کر سمن کیا تھا۔ ماحول کو دیکھتے ہوئے ممبئی پولیس کو شرد پوار سے اپیل کرنی پڑی تھی کہ وہ ای ڈی دفتر نہ جائیں۔ اس کے بعد برسراقتدار بی جے پی ان کی طرف انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں کر پائی ہے۔
نہرو-گاندھی فیملی کے تئیں کئی مواقع پر پوار نے عدم اطمینان کا اظہار کیا، لیکن وہ ہمیشہ اس بات سے متاثر رہے ہیں کہ کس طرح سونیا گاندھی نے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد کانگریسیوں کی زبردست حمایت سونیا گاندھی کو ملی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب شرد پوار نے خود 1999 میں پارٹی کا بٹوارا کر دیا تھا اور سونیا کے استعفیٰ کے بعد ان کے ساتھ مٹھی بھر لوگ ہی بچے تھے۔ شرد پوار اپنے بھتیجے کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن، اس سب کے بیچ ہی ایک سیاسی چال بھی ہے، جو بی جے پی کو دھیان میں رکھ کر چلی گئی ہے۔ بی جے پی لگاتار این سی پی کو نشانہ بناتی رہی ہے، اور این سی پی میں سب سے کمزور کڑی کے طور پر اجیت پوار کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔ لیکن اتوار کو آئے مہاراشٹر کے مارکیٹ کمیٹیوں کے انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ مہاراشٹر کا مزاج فی الحال ’مہا وکاس اگھاڑی‘ کے ساتھ ہے۔
این سی پی کی مضبوط گرفت کسانوں کے درمیان ہے، اور اسی وجہ سے پارٹی بی جے پی کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ اگر این سی پی حکومت کا حصہ بنتی ہے تو وہ حکومت سے اپنے حامیوں کے ساتھ الگ ہو جائیں گے، کیونکہ شندے گروپ کو اجیت پوار ایک آنکھ نہیں بھاتے ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں شرد پوار کو لوک سبھا انتخاب تک پارٹی کی نبض کو پکڑے رہنا ہوگا۔ ایسے میں شرد پوار وہی کر رہے ہیں جس میں وہ ماہر ہیں، یعنی بی جے پی سمیت سبھی کو تذبذب میں ڈال دینا۔ لیکن اس قدم سے انھیں کانگریس لیڈران کی حمایت بھی ملی ہے، جو ان کے تعلق سے شبہات کے شکار ہو سکتے تھے۔ وہیں اُدھو ٹھاکرے کی شیوسینا تو ایک طرح سے ان کے ہی اوپر منحصر ہے۔ مہاراشٹر کانگریس کے صدر نانا پٹولے نے پوار کے استعفیٰ پر افسوس ظاہر کیا ہے اور سابق وزیر اعلیٰ اشوک چوہان، جن کے والد پوار کے کانگریس کو تقسیم کرنے سے پہلے پارٹی کے حریف تھے، نے بھی کہا ہے کہ مہا وکاس اگھاڑی کو کم از کم اگلے لوک سبھا انتخاب تک شرد پوار کی ضرورت ہے۔
پوار نے اپنے سیاسی پتّے بہت احتیاط سے چلے ہیں، اور ان کے قدم کی بھنک تک نہیں لگی۔ منگل کے روز جب انھوں نے استعفیٰ کا اعلان کیا تو یہ سن کر ان کے دائیں بازو پرفل پٹیل بھی حیران رہ گئے۔ ابھی اس سیاسی منظرنامہ کا پورا ایپی سوڈ سامنے آنا باقی ہے، او ران کے حامیوں کو بھروسہ ہے کہ شرد پوار کے پاس ابھی بہت سے ایسے پینترے باقی ہیں جن کے بعد ہی اس سیاسی منظرنامہ سے پردہ اٹھے گا۔
(سنتوشی گلاب کلی مشرا کے اِن پٹ کے ساتھ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔