آگ سے زیادہ مٹی کا تیل ڈالنے والوں سے خطرہ

ملک کس دور سے گزر رہا ہے اور اقلیتوں کے کیا مسائل ہیں اس پر بولنا یا لکھنا فضول ہے ہاں سلگتی لکڑیوں پر کیسے پانی ڈالا جا سکتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تصویر بشکریہ ٹوئٹر
تصویر بشکریہ ٹوئٹر
user

سید خرم رضا

جنتر منتر پر جس طرح کے نعروں کے ویڈیو سامنے آئے اور پھر جس طرح کی اس پر ایک قانونی کارروائی ہوئی اس میں کچھ بھی تو نیا نہیں ہے۔ نیا اس لئے نہیں ہے کیونکہ نفرت کی آگ بہت سالوں سے اس ملک میں سلگ رہی ہے اور کبھی کبھی ہوا دینے پر اس میں لپٹیں بھی اٹھنے لگتی ہیں۔ ہوا دینے کے لئے ویسے تو سیاست داں ہی کافی ہیں لیکن اب یہ نفرت بھری لکڑیاں اتنی زیادہ ہو گئی ہیں اور اتنی زیادہ سلگتی نظر آ رہی ہیں کہ کبھی کبھی ہوا کے بغیر بھی ان لکڑیوں میں لپٹیں اٹھنے لگتی ہیں۔ پہلے اس میں تھوڑے تھوڑے وقفہ پر پانی پڑتا رہتا تھا تو اس میں لپٹیں اسی وقت اٹھتی تھیں جب سیاست داں بہت تیز نفرت کی ہوا چلاتے تھے۔ ان لپٹوں میں شدت لانے کے لئے کبھی مٹی کے تیل کی ضرورت بھی پڑتی تھی اور اس کا کام کچھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اشخاص اور تنظیمیں بھی کرتی تھیں۔ کچھ جانیں اور کچھ جائدادیں ان لپٹوں کی نذر ہو جاتی تھیں اور پھر پانی ڈال کر اس آگ کو بند کرنے کی کوشش ہوتی تھی۔ آج شائد اس آگ کی مستقل ضرورت ہے اس لئے پانی ڈالنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

1984 کے سکھ مخالف فسادات کے بعد ان فرقہ پرست لکڑیوں میں آگ سلگانے کا کام شروع ہو گیا تھا۔ اس کے لئے پہلے شاہ بانو کیس کا استعمال کیا گیا جس میں عبد اللہ بخاری، سید شہاب الدین وغیرہ نے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مل کر ان سلگتی لکڑیوں میں سے لپٹیں پیدا کرنے کے لئے مٹی کے تیل کا کام کیا اور پھر منڈل اور بابری مسجد سے ان لکڑیوں میں سے خوب لپٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان لپٹوں کی زد میں کہیں ملک کی بنیادی سوچ نہ آ جائے اس کے لئے تھوڑے تھوڑے وقفہ پر پانی ڈالا جاتا رہا۔ لکڑیاں سلگتی رہیں اور پھر نفرت کی ہوا اتنی تیز چلی کہ اب لپٹیں مستقل اٹھنے لگیں۔


سال 2014 میں پہلی مرتبہ بی جے پی پوری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ گئی اور ان سلگتی لکڑیوں میں جان پڑ گئی اور پانی کا خوف بھی ختم ہو گیا۔ ان لکڑیوں نے پہلے موب لنچنگ کو اپنا ہتھیار بنایا اور جب دیکھا کہ ان پر پانی نہیں ڈالا گیا یعنی ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہوئی تو پھر باقی لکڑیوں نے بھی اپنا سر اٹھانا شروع کر دیا اور اب تو ان کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ حکومت کی کارکردگی پر عوام میں سوال کھڑے ہونے لگے ہیں۔ جنتر منتر کے واقعہ کے تعلق سے یہ کہا جا رہا ہے کہ حزب اختلاف نے پیگاسس، مہنگائی اور کسانوں کے مدے پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جو گھیرا ہوا تھا اس سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ ہنگامہ آرائی ہوئی اور اگر اس میں کچھ بھی حقیقت ہے تو یہ ملک کے لئے بہت نقصاندہ ہے۔

ملک کس دور سے گزر رہا ہے اور اقلیتوں کے کیا مسائل ہیں اس پر بولنا یا لکھنا فضول ہے ہاں سلگتی لکڑیوں پر کیسے پانی ڈالا جا سکتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اقلیتوں کو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس پر پانی ڈالنے کے لئے کون کھڑا ہے اور کن کے برتنوں میں پانی نہیں بلکہ مٹی کا تیل ہے۔ جس دن اقلیتیں اس حقیقت سے روشناس ہو جائیں گی، اس دن اس آگ کو بجھانے میں کافی مدد ملے گی۔ اقلیتوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انجانے میں یا جذبات میں ان سے شاہ بانو اور بابری مسجد والے معاملہ جیسی غلطی نہ ہو جائے۔ جن اشخاص اور تنظیموں کے تعلق سے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی سوچ اور حکمت عملی ہی وہ پانی ہے جس سے یہ آگ بجھ سکتی ہے لیکن بعد میں ان پر یہ حقیقت افشا ہوئی کہ دراصل یہ پانی نہیں بلکہ مٹی کا تیل تھا۔


ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کن کے برتنوں میں پانی ہے اور کن کے برتنوں میں پانی کی شکل میں مٹی کا تیل ہے۔ آج جو خود کو اقلیتوں کا سب سے بڑا ہمدرد بتانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اقلیتوں کو ان کا کھویا ہوا حق دلانے کی کوشش میں سب سے پیش پیش ہیں دراصل یہ وہی لوگ ہیں جن کے برتنوں میں پانی نہیں بلکہ مٹی کا تیل ہے۔ آ ج کی تاریخ میں اویسی وہ نام ہے جس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ ان سلگتی لکڑیوں میں جان پیدا کر دیتا ہے اور جتنی تیزی سے اس کے منہ سے نکلا ہوا لفظ اقلیتوں کے دماغوں میں داخل ہوتا ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ ان سلگتی لکڑیوں میں ہوا دینے والوں کا کام آسان ہو جاتا ہے اور ان میں سے لپٹیں اٹھنے لگتی ہیں۔ اویسی کے علاوہ کیجریوال کی پارٹی بھی پانی کی شکل میں مٹی کا تیل لئے ہوئے کھڑی ہے۔ اگر ایمانداری سے اقلیتیں چاہتی ہیں کہ آ گ بجھ جائے یا اس کی شدت میں کمی آ جائے تو اس کو پہلے ان مٹی کا تیل ڈالنے والوں کو روکنا پڑے گا، نہیں تو وہ دن دور نہیں جب یہ سلگتی لکڑیوں میں اتنی تیز لپٹے اٹھیں گی کہ سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے گا اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔