پیگاسس معاملہ، سچ تو سامنے آنا چاہئے... سید خرم رضا
پیگاسس ایشو کے ذریعہ حکومت نے صرف اپوزیشن کو ہی متحد نہیں کیا بلکہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو اپوزیشن کا قائد بننے کے لئے پلیٹ فارم پیش کر دیا ہے۔
جس دن سے پیگاسس جاسوسی معاملہ کا انکشاف ہوا ہے اس دن سے ہر ملک اپنے انداز میں اس سے نمٹ رہا ہے۔ فرانس کے صدر ایمنول میکران نے اپنا فون تبدیل کر دیا ہے اور اس معاملہ کی جانچ شروع کروا دی ہے، وہیں ہندوستان میں اس معاملہ پر حزب اختلاف نے سڑکوں اور پارلیمنٹ میں ہنگامہ مچایا ہوا ہے، لیکن حکومت نے پُراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں یہ معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ الجزائر، ہنگری اور خود اسرائیل نے اس سارے معاملہ کی جانچ شرع کروا دی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ پیگاسس جاسوسی آلہ بنانے والی کمپنی این ایس او اسرائیلی کمپنی ہے، لیکن اس نے بھی اس کی جانچ شروع کروا دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کھیلوں کے تئیں نظریہ بدلنے کی ضرورت ہے... سید خرم رضا
پیگاسس جاسوسی معاملہ کا ہندوستانی سیاست پر کیا اثر پڑ رہا ہے یا پڑ سکتا ہے اس پر غور کرنے سے پہلے ہمیں اس پر ضرور نظر ڈالنی چاہئے کہ پیگاسس جاسوسی آلہ کیوں بنایا، کن کو یہ بیچا جا سکتا ہے اور جن حکومتوں نے اسے خریدا انہوں نے اس کا استعمال کن لوگوں کے خلاف کیا۔ پیگاسس اسپائی ویئر اسرائیل کے تین سابق خفیہ ایجنسیوں کے عہدیداراں کی کمپنی این ایس او نے تیار کیا ہے اور این ایس او دراصل ان تین عہدیداران کے ناموں کے پہلے ہندسے ہیں یعنی نیو کا’ این‘، شالیو کا ’ایس‘ اور اومری کا ’او‘ ہے۔ اس اسپائی ویئر کے ذریعہ کسی بھی شخص کی تمام معلومات صرف اس کے فون نمبر سے حاصل کی جا سکتی ہے اور اس اسپائی ویئر کو داخل یا انجیکٹ کرنے کے لئے صرف فون نمبر کی ضرورت ہوتی۔ اس سافٹ ویئر کی قیمت چار کروڑ روپے ہے جبکہ دس فون میں اس اسپائی ویئر کو داخل کرنے کے لئے پانچ کروڑ یعنی ایک فون میں داخل کرنے کی قیمت پچاس لاکھ روپے ہے۔
کمپنی کے مطابق پیگاسس جاسوسی آلہ صرف مجرم اور دہشت گردوں کی معلومات حاصل کر نے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن ابھی تک کی خبروں کے مطابق ایسی کوئی بھی اطلاع نہیں ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کو کسی مجرم یا دہشت گرد کے فون میں انجیکٹ کیا گیا ہو اور اگر کیا گیا ہے تو وہ ایک یا دو ہو سکتے ہیں جن کا ذکر ان خبروں میں نہیں ہے۔ این ایس او اس بات کی وضاحت کر چکی ہے کہ یہ اسپائی ویئر کسی فرد کو نہیں بیچا جا سکتا، بلکہ صرف سرکاری اداروں کو ہی دیا جا سکتا ہے یعنی فرانس کے صدر ایمنول میکران کو سب معلوم ہوگا۔ جہاں تک اس کے استعمال کا سوال ہے تو وہ کچھ ممالک کے سربراہوں کے خلاف، صحافیوں کے خلاف، افسران کے خلاف اور سماجی کارکنان کے خلاف کیا گیا ہے۔ الزام ہے کہ ہندوستان میں تین سو افراد کے فون میں یہ اسپائی ویئر داخل کیا گیا ہے۔ الزام یہ بھی ہے کہ ان تین سو افراد میں داؤد ابراہیم، چھوٹا شکیل، حافظ سعید وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ راہل گاندھی، پرشانت کشور، صحافی، وزراء و دیگر لوگ شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : اپنوں کی جاسوسی کرنے کا کیا فائدہ... سید خرم رضا
پیگاسس معاملہ پر حکومت کی خاموشی نے حزب اختلاف کو متحد ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ شائد حکومت کے ذہن میں یہ رہا ہو کہ پیگاسس پر حزب اختلاف بحث کروانے کے مطالبہ کی وجہ سے دیگر عوامی مدوں پر توجہ نہیں جائے گی۔ ظاہر ہے کوئی بھی حکومت نہیں چاہے گی کہ وہ مہنگائی، بے روز گاری، تباہ حال معیشت جیسے عوامی مدوں پرحزب اختلاف کو ہنگامہ کرنے کا موقع دے۔ کوئی بھی حکومت نہیں چاہے گی کہ کورونا وبا کی دوسری لہر کے دوران عوام جن تکالیف سے دو چار ہوئی ہے وہ ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں اور حکومت کے لئے پریشانی کا سبب بنیں، وہ بھی اس وقت جب ملک کی سب سے بڑی ریاست یعنی اتر پردیش میں کچھ ماہ بعد اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔
حکومت کی یہ غلط فہمی ہے کہ پیگاسس کی وجہ سے ان مدوں پر عوام کی توجہ نہیں جائے گی۔ جب بھی کوئی اپنی گاڑی میں پٹرول ڈلوائے گا، یا گھر میں ایل پی جی سیلنڈر منگوائے گا اس کا ماہانہ بجٹ متاثر ہوگا اور اس کو لگے گا کہ اس کا یہ پیسا خود کو اقتدار میں بنے رہنے کے لئے حکومت اپنے مخالفین کی جاسوسی کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ نوجوان کو جب روزگار نہیں ملے گا تو اس کو غصہ آئے گا اور وہ سوال کرے گا کہ کیا خود کو اقتدار میں بنے رہنے کے لئے اتنے مہنگے اسپائی ویئر خریدنے کی ضرورت ہے۔ عوام سوال کرے گی کہ معیشت کا جس وقت اتنا برا حال ہو اس وقت اس اسپائی ویئر کی کیا ضرورت ہے اور وہ بھی اپنے ہی لوگوں کے خلاف۔ اس غلط فہمی میں شائد حکومت نے ایک غلطی اور کردی کہ اس معاملہ پر صفائی نہ دے کر اپوزیشن کو متحد کر دیا۔
حکومت نے صرف اپوزیشن کو ہی متحد نہیں کیا بلکہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو اپوزیشن کا قائد بننے کے لئے پلیٹ فارم پیش کر دیا۔ راہل گاندھی جن کو اپنی پارٹی، برسر اقتدار پارٹی اور ذرائع ابلاغ نے ہر طرح سے نکارنے کی کوشش کی، لیکن ان کی سچائی اور ان کے عزم کو کچھ دنوں تک تو چھپانے میں کامیاب ہوئے لیکن عوام کے سامنے اب حقیقت آ چکی ہے۔ اب دھیرے دھیرے سب راہل گاندھی کو قائد ماننے کے لئے مجبور ہیں۔ کچھ مہینوں کی بات ہے جب اس پروپیگنڈے کی بھی ہوا نکل جائے گی کہ وزیر اعظم کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ دن دور نہیں جب خود بی جے پی کے اندر وزیر اعظم کے کام کاج پر سوال اٹھنے لگیں۔ اتر پردیش میں جس طرح راج ناتھ سنگھ غائب ہیں یہ اسی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
سپریم کورٹ نے پیگاسس پر سنوائی کے پہلے ہی دن کہہ دیا ہے کہ ’سچ تو سامنےآنا چاہئے‘۔ یہ آنے والے دنوں کی طرف اشارہ ہے جب وزیر اعظم کے لئے یوگی سے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ حکومت نے نہ صرف حزب اختلاف کو متحد کر دیا ہے بلکہ لا شعوری طور پر اس نے راہل گاندھی کو حزب اختلاف کی قیادت کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم بھی فراہم کر دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔