کھیلوں کے تئیں نظریہ بدلنے کی ضرورت ہے... سید خرم رضا

جس دن ہم نے کھیلوں کے تئیں اپنا نظریہ تبدیل کر لیا اسی دن ہمارے اسکولوں میں کھیلوں کے لئے بہترین میدان ہوں گے، کوچز ہوں گے اور بہترین کھلاڑی ہوں گے۔

اولمپک، تصویر آئی اے این ایس
اولمپک، تصویر آئی اے این ایس
user

سید خرم رضا

اولمپک کا مطلب کھیلوں کا سب سے بڑا میلہ اور کھیلوں کا موسم۔ اس میں شرکت کے لئے کھلاڑی، کوچ اور حکومتیں رات دن ایک کر دیتے ہیں اور سب کی نظریں بس تمغوں پر ٹکی ہوتی ہیں۔ کھلاڑیوں کا خواب ہوتا ہے کہ دنیا کے اس عظیم ترین پلیٹ فارم پر اسے تمغہ حاصل ہو جائے۔ کوچ کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا شاگرد اپنی کارکردگی سے اس کا بھی نام روشن کر دے اور ملک و حکومتوں کے لئے یہ بڑا اعزاز ہوتا ہے کہ کوئی کھلاڑی ملک کا پرچم بلند کرے۔

کھلاڑیوں کی جن حصولیابیوں کو ہم اپنے سوشل میڈیا گروپس میں شئیر کرتے ہیں وہ بھی ایک عام آدمی کا خوشی کا اظہار اور ملک سے محبت کا جذبہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کھلاڑی اور کوچ اس خوشی اور اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے اپنی ہر خوشی قربان کر کے سب کے چہروں پر مسکان لاتے ہیں۔


کووڈ کی وبا کے دوران ٹوکیو میں منعقد ہوئے اولمپکس میں ہندوستان کو سب سے پہلے منی پور کے ایک قبیلہ سے تعلق رکھنے والی چھوٹی سی لڑکی میرا بائی چانو نے تمغہ دلایا اور اس کی وجہ سے ہندوستان کا نام تمغوں کی فہرست میں نظر آیا۔ ظاہر ہے ہر شخص کی نظریں اس پر لگی رہتی ہیں کہ ملک میں کس کو اور تمغہ ملا۔ مکے باز میری کام کو جب تمغہ نہیں ملا تو اس کے آنسو اس کے غم کا اظہار کر رہے تھے۔

ہم سب کو اس بات پر خوشی ہے اور نہ ہونے کا سوال نہیں ہوتا کہ میرا بائی چانو نے ملک کو ویٹ لفٹنگ میں چاندی کا تمغہ دلایا، لیکن بہت کم لوگوں کو پہلے یہ علم تھا کہ اس نے دو سال سے گھر کا کھانا نہیں کھایا تھا، اس نے اپنی پسند اور اپنے ہر طرح کے شوق کو اس تمغہ کو حاصل کرنے کے لئے قربان کر دیئے تھے۔ اس کے کوچ نے اس کے لئے کیا کیا قربانیاں دیں اور حکومت نے اس کے لئے امریکہ میں تمام سہولیات فراہم کرائیں۔ ہمیں اس جذبہ کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے۔


میرا بائی چانو کی وجہ سے جو ملک کے ہر شہری کو خوشی ملی ہے اور دیگر کچھ کھلاڑیوں کی وجہ سے ہمیں جو خوشی ملنے والی ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، لیکن ہمیں دوسرے پہلو پر بھی نظر رکھنی چاہئے کہ ہندوستان میں کھیلوں کا کیا حال ہے۔ کھیل اور کھلاڑی جو ملک کے سب سے بہترین سفیر ہوتے ہیں، ان کے تیئں ہمارا کیا رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی تو ہم کھل کر تنقید کرتے ہیں لیکن حکومت بھی ہماری ترجیحات کو ہی ذہن میں رکھتی ہے کیونکہ حکومت میں لوگ ہم میں سے ہی ہیں وہ چاہے منتخب نمائندے ہوں یا افسران۔ والدین، رشتہ دا، ٹیچر اور قائدین اسی کو اچھا اور کامیاب سمجھتے ہیں جو اچھے نمبر لاتا ہے اور زیادہ پیسے کماتا ہے۔ یہاں تک کے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی اپنے شریک حیات کے انتخاب کے وقت ایک دوسرے کی تعلیم اور نوکری کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم کھیلوں کو نہ تو تعلیم کا حصہ مانتے ہیں اور نہ سماجی زندگی میں اسے کوئی اہمیت دیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہی ہے کہ ہم صرف جس وقت کوئی کھلاڑی تمغہ حاصل کر لیتا ہے یا کسی کھیل میں نام کما لیتا ہے تو ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس کی صلاحیتوں کو سراہتے ہیں، حکومت بھی یہی کرتی ہے لیکن زمینی سطح پر ہم کچھ نہیں کرتے۔ والدین سب سے پہلے اپنے بچے کے کھیل کی صلاحیت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اسکولوں میں تو کھیلوں کے لئے دن بدن وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہم بس تعلیم میں 90 فیصد حاصل کرنے والے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔ کھیلنے والے بچے کو تو بس ہم دن رات اس کے مستقبل کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے کھلاڑی بہت تناؤ میں زندگی گزارتا ہے۔


اگر واقعی میں ہمیں ملک کا نام روشن کرنا ہے اور ملک کے لئے بہترین سفیر تیار کرنے ہیں تو ہمیں کھیلوں پر توجہ دینی چاہئے اور ہمیں کھیلوں کے تئیں اپنے نظریہ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ جس دن ہم نے کھیلوں کے تئیں اپنا نظریہ تبدیل کر لیا اسی دن ہمارے اسکولوں میں کھیلوں کے لئے بہترین میدان ہوں گے، کوچز ہوں گے اور بہترین کھلاڑی ہوں گے۔ اس کے لئے کھلاڑیوں، کوچز اور انتظامیہ کو ایماندار اور سنجیدہ ہو نا پڑے گا۔ کھیل کلاس اور دفتر سے چھٹی کا بہانا نہیں ہونا چاہئے بلکہ ملک، اپنا اور خاندان کا نام روشن کرنے کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ اگر اولمپکس میں تمغوں کی فہرست میں ہندوستان کا نام اوپر کے ممالک میں چاہتے ہیں تو ہمیں نظریہ بدلنا ہوگا اور قربانیاں دینی ہوں گی، نہیں تو ہم چند میرابائی کے قصے پڑھتے رہیں گے لیکن دنیا کے نقشہ پر کہیں اپنا مقام نہیں بنا پائیں گے۔ کھیل جہاں بہترین سفارتکاری کا کام کرتا ہے وہیں آپسی بھائی چارے کے فروغ کے لئے اس سے موثر ذریعہ کوئی نہیں ہے اور ہندوستان کو اس کی بہت ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔