گراؤنڈ رپورٹ: مہنگائی اور بے روزگاری سے عاجز آ چکے یوپی کے عوام اب تبدیلی کے خواہشمند
ضلع بجنور کے عوام بتا رہے ہیں کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری سے کس طرح تنگ آچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے مشکل حالات نوٹ بندی سے شروع ہوئے تھے اور آج تک وہ سنبھل نہیں پائے ہیں۔
اتر پردیش میں انتخابی بگل بج چکا ہے اور کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اب اپنے اپنے طریقہ سے انتخابی تشہیر میں مصروف ہو چکی ہیں۔ نیشنل ہیرالڈ کی ٹیم بھی اپنے قارئین کے لئے زمینی اور غیر جانبدار رپورٹ پیش کرنے کے لئے پابند ہے۔ عوام کے مزاج کا جائزہ لینے والی اس رپورٹ میں اتر پردیش کے ضلع بجنور کے عوام بتا رہے ہیں کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری سے کس طرح تنگ آچکے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ ان کے مشکل حالات نوٹ بندی سے شروع ہوئے تھے اور آج تک وہ سنبھل نہیں پائے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : اسرو کو بڑا جھٹکا! تکنیکی گڑبڑی کے سبب ’جی سیٹ‘ مشن ناکام
دہلی-پوڑی قومی شاہراہ پر 135 کلو میٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد بجنور کا مشہور نمائش میدان کا چوراہے کا نظارہ صوبے میں انتخابات کی تیز ہوتی رفتار کا اشارہ دیتا ہے۔ اس چوراہے کی چاروں سمت پر سڑک کے کنارے بی جے پی کے لیڈران کے درجنوں ہورڈنگ نصب کئے گئے ہیں۔ ڈی ایم اور ایس پی دفتر کی جانب جانے والی جنوبی سڑک پر یہاں سے 200 میٹر کے فاصلہ پر تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کے دفاتر موجود ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کے ملازمین کا کہنا ہے کہ جو ہورڈنگ یہاں نصب کئے گئے ہیں ان میں سے آدھے ایسے ہیں جن کے لئے اجازت طلب نہیں کی گئی۔
بی ایس پی کے جنرل سکریٹری ستیش چندر مشرا بجنور میں 14 اگست کو روشن خیال لوگوں کے ایک سیمینار کا اہتمام کر رہے ہیں، جبکہ پاس ہی موجود سماج وادی پارٹی کے دفتر میں پارٹی کارکنان نئے ووٹ بنوانے کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وہیں کانگریس کے دفتر میں مہنگائی کے خلاف عوام کی آواز بلند کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے رہنما خورشید منصوری کا کہنا ہے کہ پوری حزب اختلاف انتخابات کی تیاریوں میں جوش و جذبہ کے ساتھ مصروف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام دشمن اس حکومت سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔
بجنور کی اس ہلچل سے دور ضلع کے قصبہ نجیب آباد کا ماحول پرسکون ہے۔ اتر پردیش میں ہفتہ وار اتوار بازار بند رہتے ہیں، تاہم کچھ دکاندار اپنی دکان کا شٹر گرا کر باہر بیٹھے ہیں۔ اچل گوئل کا کہنا ہے کہ جب گاہک آتا ہے تو وہ سامان نکال کر دے دیتے ہیں، حالانکہ انہوں نے فوٹو کھنچوانے سے انکار دیا۔ اچل کا کہنا ہے کہ ان پر جرمانہ عائد ہو جائے گا اور پھر اس رقم کو کمانے میں انہیں تین دن لگیں گے، آج بھی یہاں اس لئے بیٹھے ہیں کہ دکان کا کرایہ ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
نجیب آباد سے ہریدوار جانے والی سڑک پر جلال آباد کے قریب بند پڑے سائیں ڈھابہ پر بیٹھے ندیم کا کہنا ہے کہ کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ کاریگر گھر چلے گئے ہیں۔ ہم ان کی تنخواہ بھی ادا کرنے سے قاصر تھے۔ گاہک بھی نہیں آ رہے ہیں۔ یہ ہریدوار کا مرکزی راستہ ہے، پہلے ہزاروں گاڑیاں یہاں سے گزرتی تھیں لیکن اب ان کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ ندیم کا کہنا ہے کہ کاروبار ٹھہر سا گیا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ یہاں لوگوں میں بھائی چارگی بہت زیادہ ہے اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن کام نہیں کرتا۔ ندیم بتاتے ہیں کہ مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں نے عام آدمی کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ یہیں موجود ببلو نے کہا کہ اس حکومت کی رخصتی ضروری ہے کیونکہ مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے اور حکومت اس مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت تقسیم کی سیاست کر رہی ہے اور اس کا ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
اسی اسمبلی کے قصبے ساہن پور کے ایک دلت اکثریتی علاقے نئی بستی میں ہمیں دیکھ کر کچھ لوگ جمع ہو گئے اور کئی طرح کی شکایتیں کیں۔ خاص طور پر کچھ خواتین بھی گھر سے باہر نکل آئیں۔ ان تمام لوگوں کی بنیادی شکایت پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنائے گئے گھروں سے متعلق ہے۔ یہاں پیشہ سے استاد نتن کمار بتاتے ہیں کہ مقامی نگر پنچایت کے نمائندوں اور مکانات کی تعمیر کے ٹھیکیداروں نے مل کر امیروں کے لیے دو منزلہ عمارت بنائی ہے جبکہ غریب کھلی چھت کے نیچے سو رہے ہیں۔ 70 سالہ شانتی دیوی اس معاملے پر برہمی کا اظہار کرتی ہیں، کہ پیسے دیئے بغیر فارم نہیں بھر پائیں۔ بھیم آرمی کے کارکن وسیم شیخ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی بار اس کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ نتن کمار کہتے ہیں کہ اس حکومت میں بدعنوانی بہت بڑھ گئی ہے۔ یہاں پردھان منتری آواس یوجنا میں 20 ہزار کی رشوت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ غریب کہاں سے اتنی رقم دیں گے؟
یہاں بیٹھے 65 سالہ شری رام کہتے ہیں کہ بہترین حکومت کانگریس کی تھی۔ اس حکومت میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ مایاوتی اور اکھلیش کی حکومتیں بھی رہی ہیں لیکن اس حکومت میں ہر کوئی پریشان ہو گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ مزدوری بھی نہیں لگ پا رہی ہے۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ گیس سلنڈر 900 روپے کا ہو گیا ہے۔ سرسوں کا تیل 200 روپے فی کلو ہے۔ اب آپ لکڑی کے چولہے پر واپس بھی نہیں جا سکتے۔ گیس سلنڈر ایک عادت بن چکی ہے خواتین اب لکڑی کے چولہے پر کھانا نہیں بنا سکتیں۔ اب مفت گیس سلنڈر حاصل کرنے کے نقصانات قابل فہم ہیں۔
یہاں پر موجود یوگیش راجپوت بتاتے ہیں کہ حکومت بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ اگرچہ مرکزی حکومت سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں لیکن یوگی حکومت نے غنڈہ گردی ختم کر دی ہے، حالانکہ نتن اپنی بات کے بیچ میں کہتے ہیں کہ غنڈہ گردی تو اب بھی جاری ہے، بس غنڈوں کے چہرے بدل گئے ہیں۔
بجنور کے مسلم اکثریتی گاؤں علی پورہ میں لوگوں کا کہنا ہے کہ روزگار ان کا پہلا مسئلہ ہے۔ یوں لگتا ہے گویا ان کی خوشیاں ان سے روٹھ گئی ہیں۔ یہاں محمد ذاکر کہتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ نوٹ بندی کے جھٹکے سے لوگ ابھر نہیں پائے ہیں اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔ صرف اس گاؤں میں ہی ایک ہزار لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں جبکہ گاؤں کی آبادی تقریباً 5 ہزار کی ہے۔ ہر گھر میں ایک بے روزگار ضرور مل جائے گا۔ یہاں کے محمد امجد بتاتے ہیں کہ بی جے پی کو فرقہ وارانہ تقسیم کا فائدہ ملتا ہے، اس لیے اسے عوام کے غصے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ امجد نے کہا کہ اسد الدین اویسی بھی ایسا ہی کرنے یہاں آ رہے ہیں۔
احسان احمد مقامی ایم ایل اے تسلیم احمد سے ناراض ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 2012 میں نجیب آباد اسمبلی سیٹ کو محفوظ سیٹ سے جنرل بنایا گیا تھا، تب سے تسلیم احمد ایم ایل اے ہیں۔ انہوں نے اس بار سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ احسان کا کہنا ہے کہ ساڑھے چار سال تک انہوں نے گاؤں کی کوئی خبر نہیں لی۔ حکومت کو کیا الزام دیں، جب وہی پروا نہیں کرتا جسے بھائی سمجھ کر جتایا تھا! اس گاؤں کے بیشتر لوگ کان کنی کا کام کرتے تھے لیکن اب ہزاروں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
نجیب آباد میں ترقی کی صورتحال ایسی ہے کہ تاریخی سلطانہ ڈاکو کا قلعہ (نجیب الدولہ کا قلعہ) کی طرف جانے والی سڑک مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے۔ جو سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں انہیں گُھٹنُوں تک بھرے ہوئے پانی سے گزرنا ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک سیاح کپل بتاتے ہیں کہ وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہیں کہ اس طرح کے تاریخی ورثے کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے اور یہاں تک پہنچنے کا راستہ ٹوٹا ہوا ہے۔ مقامی عوامی نمائندوں اور حکومت کو اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Aug 2021, 12:38 PM