مدھیہ پردیش سے کانگریس کی نئی جست!... اعظم شہاب

پارٹی کی زمام کار نوجوانوں اور نئے ہاتھوں میں دینے کی یہ شروعات کانگریس پارٹی کی ایک نئی جست ثابت ہوگی جو عام انتخابات میں ایک نئی تاریخ رقم کیے بغیر نہیں رہے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اعظم شہاب

کہا جاتا ہے کہ حالیہ انتخابات سے قبل کانگریس ہائی کمان نے ایک آزاد ایجنسی کے ذریعے چاروں ریاستوں میں ایک سروے کروایا تھا۔ اس ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کئی ایسے لوگوں کو امیدوار نہ بنانے کی شفارش کی تھی جن کے تئیں عوام میں ناراضگی تھی۔ پارٹی ہائی کمان اسی رپورٹ کی بنیاد پر انتخابی حکمت عملی ترتیب دینے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن پارٹی کے ریاستی سربراہان نے اس رپورٹ کو یکسر خارج کرتے ہوئے اپنی پسند کے امیدواروں کو ٹکٹ دیا اور پوری انتخابی کمان اپنے ہاتھ میں رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تلنگانہ کو چھوڑ کر تینوں ریاستوں میں کانگریس کے امیدوار بری طرح شکست سے دو چار ہو گئے۔

سروے رپور ٹ کو خارج کرنے اور اپنی پسند کے قریبی لوگوں کو ٹکٹ دینے کے معاملے میں مدھیہ پردیش کانگریس کے سربراہ کمل ناتھ کا نام میڈیا میں خوب اچھلا تھا۔ انہوں نے اپنے چہیتے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے ساتھ ہی انڈیا اتحاد کے ساتھی اکھلیش سنگھ یادو کے خلاف بھی کچھ ایسی باتیں کہی تھیں جو دونوں پارٹیوں میں کثافت کی وجہ بن گئی تھیں۔ میڈیا میں تو یہ خبر بھی آئی تھی کہ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے مطالبات نیز انتخابی حکمت عملی سے متعلق تمام فیصلے کمل ناتھ خود لے رہے تھے۔ کمل ناتھ کے اندر یہ خود اعتمادی پیدا ہو گئی تھی کہ ریاست کی سیاسی صورت حال کو وہ پارٹی ہائی کمان سے بہتر سمجھتے ہیں، لیکن جب انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ کمل ناتھ کی یہ خود اعتمادی دراصل ان کی خود فریبی تھی۔


انتخابات کے دوران کمل ناتھ نے جو فیصلے کیے بہت ممکن ہے کہ وہ ان کے نزدیک مناسب رہے ہوں، لیکن وہ یہ بات نظر انداز کر گئے کہ ہر دور اور ہر صورت حال کے تقاضے یکساں نہیں ہوا کرتے ہیں۔ ان کے سامنے بی جے پی کی مثال تھی جس نے ریاست میں حکومت مخالف ناراضگی کو دور کرنے کے لیے وہ تمام تجربات کیے جو وہ کر سکتی تھی۔ مثال کے طور پر جن وزراء یا ارکان اسمبلی سے عوام ناراض تھے اس نے ان کے ٹکٹ کاٹ دیے۔ اس نے مرکزی وزراء و ممبرانِ پارلیمنٹ تک کو میدان میں اتار دیا جسے اس کی کمزور پوزیشن سے تعبیر کیا گیا۔ لیکن ان تجربات کے ذریعے اس نے نہ صرف حکومت کے تئیں عوامی ناراضگی کو دور کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ انتخابات سے قبل کانگریس کے حق میں ہموار ہوئی رائے عامہ کو بھی اپنے حق میں موڑ لیا۔

کانگریس ہائی کمان کے ذریعے مدھیہ پردیش میں قیادت کی تبدیلی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پارٹی ہائی کمان نہ صرف یہ کہ زمینی صورت حال سے واقف تھا بلکہ وہ ریاستی اکائی کے ذریعے لیے جانے والے فیصلوں کو بھی بغور دیکھ رہا تھا۔ مدھیہ پردیش کی کمان کمل ناتھ کے ہاتھ سے لینے کے بعد یہ بات یقینی طور پر کہی جانے لگی ہے کہ راجستھان و چھتیس گڑھ میں بھی کچھ اہم اور بڑی تبدیلیاں کی جائیں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقین جانیے مدھیہ پردیش سے شروع ہونے والی قیادت کی یہ تبدیلی کانگریس کی دیگر اکائیوں پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہے گی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ تبدیلیاں راہل گاندھی کی ایماء پر ہی ہو رہی ہیں تو اس بات کا قوی امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ پارٹی ہائی کمان نے تینوں ریاستوں کی کمان نئے و نوجوان لوگوں کے ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔


مدھیہ پردیش کی مانند اگر چھتیس گڑھ و راجستھان میں بھی پارٹی کی قیادت نوجوان و نئے لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دی جاتی ہے تو اس پرویگنڈے کا دم ہی نکل جائے گا کہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں تینوں ریاستوں میں اب بی جے پی کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ان تینوں ریاستوں کی کل پارلیمانی سیٹوں میں سے محض تین سیٹیں ایسی ہیں جو بی جے پی کے پاس نہیں ہیں۔ اپنی سابقہ کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے بی جے پی کو ان تمام سیٹوں کو جیتنا ہوگا، جو موجودہ منظر نامے میں تقریباً ناممکن سا لگ رہا ہے۔ اگر عام انتخابات میں ان ریاستوں میں کانگریس اپنی نصف طاقت ہی لگا دے تو یقین جانیے بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے کم ہی ہوگی، کیونکہ کانگریس کے پاس ہارنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

پارٹی کی زمام کار نوجوانوں اور نئے ہاتھوں میں دینے کی یہ شروعات کانگریس پارٹی کی ایک نئی جست ثابت ہوگی جو عام انتخابات میں ایک نئی تاریخ رقم کیے بغیر نہیں رہے گی۔ بس شرط یہ ہے کہ اپنی جگہوں سے ہٹائے جانے والے یہ پرانے چہرے پنجاب کے کیپٹن صاحب کی طرح بی جے پی کے آلۂ کار نہ بن جائیں۔ کیونکہ بی جے پی اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی، لیکن سندھیا صاحب کا حشر دیکھنے کے بعد اس بات کا امکان کم ہے کہ کوئی اور اس کے دامِ فریب میں گرفتار ہوگا۔ سیاست میں تجربات کی اہمیت جوئے سے زیادہ نہیں ہوا کرتی ہے، لیکن اگر اس کے لیے کچھ ٹھوس زمینی حقائق موجود ہوں تو یہ ایک نئے باب کا پیش خیمہ بھی بن جاتا ہے۔ چاروں ریاستوں میں مجموعی طور پر کانگریس کو بی جے پی سے زائد ملنے والے ووٹ اس بات کا غماز ہیں کہ قیادت کی یہ تبدیلی کانگریس کی نئی اڑان بنے گی۔

(نوٹ: یہ مضمون نگار کی اپنی آراء ہے، اس سے ’قومی آواز‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔