اسمبلی انتخابات: یوگی حکومت کے خلاف ناراضگی ظاہر کرنے کا موقع!... نواب علی اختر
عوام کے مسائل پر بات کرنے اور حکومتوں کی کارکردگی پیش کرنے کے لیے تو کوئی تیار نہیں ہے، صرف فرقہ پرستی کی آگ بھڑکاتے ہوئے سیاسی روٹیاں سینکی جا رہی ہیں۔
کورونا جیسی عالمی وبا کے ساتھ ساتھ معاشی بدحالی، بے روزگاری جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہندوستان میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ منافرت اور جنون کے ماحول کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ فرقہ وارانہ طور پر حساس اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، اچانک ہی ملک میں اور خاص طور پر یوپی اور اطراف کی ریاستوں میں فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ ایک منظم سازش اور منصوبہ کے تحت ماحول کو خراب کیا جا رہا ہے۔ ان سرگرمیوں میں وہ گلی محلے کے نیتا شامل ہیں، جنھوں نے حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو گالیاں دینا اور ان کے خلاف زہر اگلنا، آسان طریقہ بنا رکھا ہے۔ حالانکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ ان کی اس حرکت سے کئی بے گناہوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے اور سماج خون کے آنسو روتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : محرم ! سرفروشان حق کا ناقابل شکست ولولہ... نواب علی اختر
موجودہ وقت میں شرپسندوں کے علاوہ سماج کا تقریباً ہر طبقہ خوفزدہ ہے، مگر حکومت دعوے اور وعدے سے اوپر اٹھ کر سماج کے تحفظ اور لوگوں میں اعتماد بحالی کے لیے کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت کی اسی سرد مہری کی وجہ سے ایک واقعہ کے بعد دوسرے واقعہ کا سلسلہ جاری ہے۔ چند روز قبل اترپردیش میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعہ کے بعد اب اندور میں چوڑیاں فروخت کرنے والے ایک مسلم نوجوان کو جنونیت پسندوں نے اپنی حیوانیت کا نشانہ بنایا ہے۔ درجنوں افراد نے مل کر ایک نوجوان پر اپنی بھڑاس نکالی اور اسے زد و کوب کرنے کے علاوہ اس سے رقم بھی چھین لی گئی۔ اس کے ساز و سامان کو تہس نہس کر دیا گیا۔ اس طرح کے واقعات سارے ملک میں یکے بعد دیگرے پیش آتے جا رہے ہیں۔
بی جے پی زیر حکمرانی مدھیہ پردیش کے اندور میں ایک نہتے اور اپنی روزی روٹی کمانے میں مصروف مسلم نوجوان کو مارا پیٹا جا تا ہے، اس سے رقم چھین لی جاتی ہے، اس کے مال کو تباہ کر دیا جاتا ہے اور ریاست کے وزیر داخلہ اس پر یہ جواز پیش کرنے کی بھونڈی کوشش کرتے ہیں کہ اس نوجوان نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ہجوم کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ کسی کی شناخت پر سوال کرے۔ اگر متاثرہ نوجوان کے تعلق سے کسی کو کوئی شکوک و اندیشے تھے تو پولیس کو مطلع کیا جاتا۔ جنونیت پسندوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ کیا حکومت ایسے شرپسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے؟ جہاں تک پولیس کا سوال ہے تو وہ بھی متاثرہ کی مدد کرنے کی بجائے حملہ آوروں کو بچانے کی زیادہ کوشش کرتی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے خونریز واقعات کی روک تھام کے لیے انتظامیہ اور حکومتیں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ اور حکومتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ایسے واقعات ہوتے رہیں اور سماج میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلتا رہے تاکہ اسی طریقے سے قوم پرستی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے لوگ اپنے سیاسی عزائم اور منصوبوں کو پورا کرتے رہیں۔ عوام کے درمیان ان کے مسائل پر بات کرنے اور حکومتوں کی کارکردگی پیش کرنے کے لیے تو کوئی تیار نہیں ہے، ایسے میں صرف فرقہ پرستی کی آگ بھڑکاتے ہوئے سیاسی روٹیاں سینکی جا رہی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کرنے کی بجائے حملہ آوروں اور جنونیت پسندوں کے حق میں جواز پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس طرح کے حالات اچانک ہی پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہ شبہات ہیں کہ انہیں ایک منظم منصوبہ اور سازش کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں ماحول کو خراب کرکے فرقہ وارانہ منافرت سے فائدہ اٹھایا جائے۔عوام کو ایک بار پھر ہندو۔ مسلم میں الجھا دیا جائے اور حقیقی مسائل سے ان کی توجہ ہٹا دی جائے۔ دہلی کے جنترمنتر پر بی جے پی قائدین کی شہہ پر فرقہ پرست جنونیوں کی طرف سے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہر افشانی کی سارے ملک میں ابھی مذمت ہوہی رہی تھی کہ اترپردیش کے کانپور میں ایک مسلم شخص کو زدو کوب کیا گیا اور اسے جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا۔ اس وقت مظلوم شخص کی معصوم بچی ساتھ تھی وہ ان درندوں سے فریاد کرتی رہی کہ اس کے ابو کو چھوڑ دیا جائے، لیکن حیوانوں نے انسانیت کی ساری حدیں توڑتے ہوئے زد و کوب کا سلسلہ جاری رکھا۔
زیادہ تر واقعات میں یہی دیکھا گیا ہے کہ پولیس صورتحال کو بگاڑنے اور حملہ کرنے والوں کے ساتھ تو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ پیش آتی ہے لیکن جو لوگ ایسے واقعات کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں تو ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ کچھ سالوں میں پولیس کے اس دوہرے کردار پر بھی سوال کھڑے ہونے لگے ہیں اور پولیس کی غیر جانبداری بھی مشکوک ہو چکی ہے۔ متاثرہ فرد کی قانونی مدد کرنے اور خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے پولیس سارے واقعہ کا رخ ہی بدلنے کی کوشش زیادہ مستعدی سے کرنے لگ جاتی ہے جس سے پولیس کا رول بھی مشکوک ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرہ افراد پولیس سے مدد مانگنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔
حالیہ سروے اور میڈیا رپورٹوں پر یقین کیا جائے تو کورونا کی وبا کے دوران حکومت کی بد انتظامی، ذات پات کے نام پر بے گناہوں کا استحصال جیسے کئی معاملوں میں ریاست کے عوام اترپردیش کی یوگی حکومت سے ناراض ہیں۔ عوام کو کورونا بحران کے دوران پیش آنے والے سانحات یاد ہیں۔ عوام کو پتہ ہیں کہ یوگی حکومت میں ہی گنگا کے ساحل نعشوں سے پٹے پڑے تھے۔ رشتہ دار ان نعشوں کو نذر آتش کرنے کی بھی حالت میں نہیں رہ گئے تھے۔ لوگ آکسیجن کے لیے تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے اور حکومت صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف تھی۔ خانگی دواخانوں میں لاکھوں روپئے اینٹھ کر بھی مریضوں کو موت کے منہ میں ڈھکیل دیا گیا۔ ان سب سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے بی جے پی نے ایک بار پھر فرقہ وارانہ جنون پیدا کرنا شروع کر دیا ہے۔
ایسے میں چند جنونیوں کو خرید کر ان کے ذریعہ ماحول خراب کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ فرقہ وارانہ منافرت کے جو ویڈیوز سامنے آ رہے ہیں وہ بھی اتفاق سے وائرل نہیں ہو رہے ہیں، بلکہ انہیں عمداً اور پوری تیاری کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے تاکہ ایک مخصوص طبقہ کی دل آزاری کی جاسکے اور اکثریتی طبقہ کے جنونیوں کو متحد کیا جاسکے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے سیاسی فائدے اور اقتدار کے لیے ملک کے ماحول کو پراگندہ نہ کریں۔ جو عناصر ماحول خراب کرتے ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اترپردیش کے عوام کے لیے بھی انتخابات ایک امتحان سے کم نہیں ہوں گے کیونکہ پانچ سال بعد انہیں بنیادی مسائل کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کا موقع ملا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔