کیا حماس کے حملوں کا کوئی تعلق یوکرین پر روسی حملوں سے ہے؟

روس-یوکرین کی جنگ کے بعد عالمی نظام میں تبدیلیاں رونما ہونی تھیں جس کا کچھ اثر تو اُس وقت ہی نظر آ گیا تھا اور رد عمل کے طور پر کچھ حصہ اب نظر آ رہا ہے۔

اسرائیل کا آئرن ڈوم / تصویر بشکریہ haaretz.com
اسرائیل کا آئرن ڈوم / تصویر بشکریہ haaretz.com
user

سید خرم رضا

اسرائیل پر حماس کے حملے اتنے اچانک ہوئے کہ کسی کو یقین ہی نہیں آیا کہ حماس ایسا بھی کر سکتا ہے۔ ان حملوں نے اب مکمل جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اسرائیل پوری شدت کے ساتھ جوابی کارروائی کر رہا ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامی ساتھی ممالک حماس کے ان حملوں کو دہشت گردانہ کارروائی کہہ رہے ہیں جبکہ فلسطین حامی ممالک ان حملوں کو دبے کچلوں کی بدلہ لینے کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔

گفتگو کا موضو ع یہ نہیں ہے کہ یہ حماس کی آزادی کی لڑائی ہے یا یہ ان کی دہشت گردانہ کارروائی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل جس کے تعلق سے یہ کہا جاتا ہے کہ پوری دنیا پر اس کا دبدبہ ہے اور جدید فوجی مرکز ہے، اس پر فلسطین جیسے لنگڑے لولے ملک کی ایک چھوٹی سی تنظیم حملہ کر دیتی ہے اور اسرائیل کو ان حملوں کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی، اور اس کے حامی ممالک بھی ان حملوں پر حیران نظر آتے ہیں۔


ان اچانک ہوئے حملوں سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں کہ یا تو اسرائیل کو ان حملوں کے بارے میں پوری طرح علم تھا اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے ان حملوں کو اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو روکنے کے لیے ہونے دیا۔ دوسرا یہ کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی اور فوج پوری طرح بدعنوان ہو چکی ہے اور ان کی توجہ صرف اور صرف فلسطینیوں پر ظلم کرنے تک محدود رہ گئی ہے۔ بہرحال، دونوں صورتوں میں ہزاروں بے گناہوں کی موت اور بے مکانی کی صورت میں سامنے آئی ہے اور پوری دنیا میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔

یہ وہ تصویر ہے جو سامنے سے نظر آ رہی ہے لیکن اتنی بڑی عالمی اتھل پتھل کے پیچھے وہ سب کچھ نہیں ہوتا جو سامنے سے نظر آتا ہے۔ یعنی کچھ تو ایسا ہے جو سامنے سے نظر نہیں آ رہا۔ اگر اس کو باریکی سے دیکھیں تو گزشتہ کچھ ماہ کے دوران بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کو اس سارے معاملے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ ماہ پہلے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کا بحال ہونا، وہ بھی چین کے کہنے پر اور سارے معاملے میں چین، روس، ایران اور عرب ممالک کا گٹھ جوڑ بننے کے ایسے واقعات ہیں جن کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔


دراصل روس-یوکرین کی جنگ کے بعد عالمی نظام میں تبدیلیاں رونما ہونی تھیں جس کا کچھ اثر تو اس وقت ہی نظر آ گیا تھا اور رد عمل کے طور پر کچھ حصہ اب نظر آ رہا ہے۔ یوکرین پر روسی حملوں کے بعد فوراً ایسا لگا تھا کہ یوکرین تو بہت جلد ہتھیار ڈال دے گا اور روس اس پر قبضہ کر لے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور دھیرے دھیرے پورا مغرب یوکرین کی پشت پر کھڑا ہو گیا اور روس کے لیے یوکرین دوسرا افغانستان بنتا نظر آنے لگا۔ روس نے بھی اس جنگ کو اپنے وقار کی جنگ بنا لیا اور پھر اس کی کوشش یہ رہی کہ یوکرین میں روس کے خلاف لڑنے اور لڑنے میں مدد کرنے والوں کو بھی گھیرا جائے۔ روس نے چین کے ساتھ مل کر مغرب کی سب سے بڑی معاشی طاقت کو گھیرنے کی حکمت عملی شروع کر دی۔ اس کے لئے اس نے مسلم ممالک خاص طور سے ایران کو تیار کیا جس کے لئے پہلے مسلم ممالک میں دشمنی کو ختم کیا گیا۔ ان دونوں ممالک نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جس وقت سعودی عرب اور ایران کے درمیان رشتے استوار کرنے کی کوششیں جاری تھیں اس وقت اسرائیل اور مسلم مملک کے رشتے بھی ہموار کرنے کی مہم جاری رکھی گئی اور شاید یہ توجہ ہٹانے کا ایک ذریعہ تھا۔

اسرائیل پر حماس کا یہ حملہ کچھ وقفہ تو چلے گا اور اس دوران یوروپی ممالک سردیوں میں ایندھن کی کم فراہمی سے بلبلا اٹھیں گے جس کی وجہ سے مغربی ممالک کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔ اس نئی پیش رفت کا تعلق نئے تبدیل شدہ عالمی نظام سے ہے اور اس میں روس و چین کی حکمت عملی کامیاب ہو یا مغربی ممالک کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں لوگ گولہ بارود کی نذر ہو جائیں گے اور ایک بڑی تعداد بے مکانی کے دور سے گزرے گی۔ ان حملوں نے جہاں اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال کھڑے کر دیے ہیں، وہیں اس کی اقتصادی طاقت کو بھی نشانہ بنا لیا ہے۔ بہرحال، کچھ بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ عرب کا خطہ جنگ کا مرکز بن گیا ہے اور تیل و ایندھن ایک بار پھر مرکز میں آ گیا ہے جس کا سیدھا فائدہ سعودی عرب کو ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔