ہنڈن برگ کی رپورٹ سے اڈانی گروپ کی شبیہ پر لگا داغ... (آکار پٹیل کا مضمون)

اڈانی گروپ کے بارے میں ہنڈن برگ ریسرچ کی رپورٹ نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے اور آسمان میں اڑتے گروپ کی کمپنیوں کے شیئرس زمین پر آ گئے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>گوتم اڈانی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

گوتم اڈانی، تصویر آئی اے این ایس

user

آکار پٹیل

مشہور رسالہ ’دی اکونومسٹ‘ نے 2016 میں ایک ’کرونی کیپٹلزم انڈیکس‘ شائع کیا تھا۔ اس انڈیکس میں کسی ملک کے ایسے کاروباری ارب پتیوں کی ملکیت کی پیمائش اس ملک کی مجموعی جی ڈی پی سے کی گئی تھی جو کرونی سیکٹر سے آتے ہیں (کرونی سیکٹر وہ سیکٹر ہوتا ہے جس میں سرکاری تحفظ سے کاروبار کو فروغ دیا جاتا ہے)۔ اس انڈیکس میں ہندوستان کی حالت بے حد خراب (نویں نمبر پر) تھی۔ 2021 میں ہندوستان کے ایسے ارب پتیوں کی تعداد جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد کے برابر تھی۔ لیکن اب ہندوستان اس انڈیکس میں ساتویں مقام پر ہے اور ایسے ارب پتیوں کی تعداد جی ڈی پی کے تین فیصد سے تین گنا بڑھ کر تقریباً 9 فیصد ہو گئی ہے۔

واضح رہے کہ کرونی سیکٹر دراصل ایکسٹریکٹوس سیکٹر، یعنی کانکنی والا شعبہ (معدنیات، کوئلہ، تیل وغیرہ) اور بنیادی ڈھانچے میں کام کرنے والا ہوتا ہے۔ ان سیکٹرس میں حکومت ہی طے کرتی ہے کہ کس کمپنی کو ان کاموں کا ٹھیکہ دیا جائے گا۔


یہ بات دھیان دینے کی ہے کہ کس طرح اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے شیئر زمین دوز ہوئے تھے اور ان کی گرتی قیمتوں نے مرکزی بجٹ پر سیاہ سایہ ڈال دیا تھا۔ صرف چند دنوں میں ہی دنیا کے دوسرے سب سے امیر شخص کی حیثیت نیچے آ گئی اور ان کی تقریباً نصف دولت غائب ہو گئی۔ ان کی فلیگ شپ کمپنی اڈانی انٹرپرائزیز کا 20 ہزار کروڑ روپے کا ایف پی او گزشتہ جمعہ کو کھلا تھا لیکن پیر تک یہ سبسکرپشن کے لیے جدوجہد کرتا نظر آیا۔ آخر کار کسی طرح ایک غیر معمولی طریقے سے اس کا سبسکرپشن پورا ہوا لیکن اس میں ریٹیل انویسٹرس، یعنی چھوٹے سرمایہ کاروں کی شراکت داری تقریباً صفر تھی۔ لیکن بدھ کی دیر شب گروپ نے اپنے ایف پی او کو پوری طرح رد کر دیا۔

اڈانی گروپ کے شیئر لگاتار غوطہ کھا رہے ہیں اور گزشتہ ایک ہفتہ سے تقریباً ہر دن ان کی قیمتوں پر لووَر سرکٹ لگ رہا ہے۔ لووَر سرکٹ وہ قیمت ہوتی ہے جب کسی کمپنی کے شیئرس کی قیمت تقریباً 20 فیصد یا سیبی کے ذریعہ طے فیصد سے کم ہو جاتی ہے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ہندوستانی سرمایہ کاروں اور غیر ملکی بینک امریکی فرم ہنڈن برگ ریسرچ کی رپورٹ کے بعد گروپ کو لے کر بے حد محتاط ہو گئے ہیں۔ ہنڈن برگ ریسرچ نے گزشتہ 24 جنوری کو ایک بے حد تفصیلی رپورٹ جاری کی جس میں اڈانی گروپ کے کاروبار کرنے کے طور طریقوں پر سنگین سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ہنڈن برگ نے اڈانی گروپ کے شیئرس پر شارٹ پوزیشن لی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے شیئرس کی قیمت گرتی ہے اور اس کے بعد بازار قیمت اور قرض لینے کی صلاحیت گھٹتی ہے تو ہنڈن برگ کو اس سے موٹا منافع ہوگا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے، اور جیسا کہ اڈانی گروپ نے اپنے بیان میں کہا بھی ہے، اس رپورٹ کے پیچھے مفادات موجود ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ہنڈن برگ کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے اور اس کے پیسے بھی لگے ہوئے ہیں۔


دوسری بات یہ ہے کہ کچھ اسباب سے ہندوستانی میوچوئل فنڈ اڈانی گروپ کی کمپنیوں میں عام طور پر سرمایہ کار سے بچتے رہے ہیں۔ حالانکہ سرکاری کمپنی ایل آئی سی نے شہریوں کے ہزاروں کروڑ روپے اڈانی گروپ میں لگائے ہوئے ہیں۔ اس پیسے پر کافی کچھ منافع بھی ہوا ہے، کیونکہ گزشتہ سالوں میں اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے شیئرس کی قیمت تیزی سے بڑھی تھی، لیکن بیشتر میں اسے نقصان ہوا ہے۔ ایسے میں یہ جاننا اہم ہے کہ اڈانی گروپ پر کیا الزامات عائد کیے گئے ہیں اور کیا ایشوز ہیں جو فکر بڑھانے والے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ غیر ملکی (آفشور) کمپنیاں جو کہ پردے کے پیچھے رہ کر کام کرنے والی کمپنیوں کا ایک گروپ ہے، ان کے پاس اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے بیشتر نان پروموٹر شیئر ہیں۔ اگر ایسا ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ سیبی کے ذریعہ ان کمپنیوں کو ڈیلسٹ، یعنی شیئر بازار سے باہر کر دیا جائے گا۔ اگر پروموٹرس کے پاس اپنی کمپنی کے بیشتر شیئر ہوتے ہیں تو وہ سپلائی کو سختی سے کنٹرول کر کے شیئرس کی قیمت میں ہیر پھیر کر سکتے ہیں۔ کیا ایسا ہو رہا ہے، اور کیا اس کا کوئی ثبوت ہے؟


گزشتہ سال بلومبرگ نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اڈانی گروپ کی کمپنیوں کا شیئر پرائس 255 ارب ڈالر ہے جبکہ ’ان سبھی کمپنیوں (شیئر بازار میں موجود سات کمپنیاں) کی مجموعی شیئر کمائی 2 ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔‘ یہ بھی بتایا تھا کہ ’اڈانی گرین انرجی لمیٹڈ کے شیئرس میں گزشتہ تین سال کے دوران 4500 فیصد کا عروج دیکھنے کو ملا‘۔ اس طرح اڈانی جو کہ حال تک دنیا کے دوسرے سب سے امیر شخص تھے، کی مجموعی ملکیت یا دولت ان کمپنیوں کی مارکیٹ پرائس کی بنیاد پر اندازہ کی گئی نہ کہ ان کمپنیوں کی اصلی کمائی کی بنیاد پر۔

اڈانی گروپ کا مجموعی ریونیو، یعنی خزانہ 2019 میں 15500 کروڑ روپے، 2020 میں 16200 کروڑ روپے، 2021 میں 13358 کروڑ روپے اور پھر 2022 میں بڑھ کر 26800 کروڑ روپے رہا۔ ان کا مجموعی منافع 2020 میں 698 کروڑ روپے، 2021 میں گر کر 368 کروڑ روپے اور 2022 میں بڑھ کر 720 کروڑ روپے رہا۔ بزنس اسٹینڈرڈ میں شائع ایک مضمون کے مطابق ’’یہ وہ منافع نہیں ہے جو اس سے 300 یا 600 گنا زیادہ مارکیٹ پرائس والی کمپنیوں سے امید کی جاتی ہے۔ یہ ایسے اعداد و شمار ہیں جو کسی شرح ترقی کے امکان والے چھوٹے اسٹارٹ اَپ کے تو ہو سکتے ہیں، نہ کہ ایسی کمپنیوں کے جو پونجی والی بڑی انفراسٹرکچر کمپنیوں کے۔‘‘


ہنڈن برگ نے اپنی رپورٹ میں جن کمپنیوں کا تذکرہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ان کا قیام صرف اور صرف اڈانی گروپ کے شیئر ہی خریدنے کے لیے کیا گیا ہے۔ مثال دیکھیے، رپورٹ میں ایک کمپنی ایلارا کا نام ہے جس کے پاس اڈانی گروپ کے 3 ارب ڈالر کے شیئرس ہیں، اس کے پاس ایک فنڈ بھی ہے جس کی مجموعی سرمایہ کاری کا 99 فیصد اڈانی میں ہے۔‘‘

پارلیمنٹ میں بتایا گیا تھا کہ اڈانی کی کمپنیوں یا اس فنڈ کی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ کوئی جانچ نہیں کی جا رہی ہے۔ بتا دیں کہ ای ڈی ہی منی لانڈرنگ کے معاملوں کی جانچ کرتی ہے۔ حکومت نے 2021 میں کہا کہ حکومت اڈانی گروپ میں کچھ عمل سے متعلق معاملوں کو دیکھ رہی ہے اور ڈی آر آئی (ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹلیجنس) اڈانی گروپ کی کچھ کمپنیوں کی جانچ کر رہا ہے۔ لیکن اس جانچ میں ابھی تک کچھ نکل کر نہیں آیا ہے۔


یہاں تک کہ جب بلومبرگ نیوز نے خبر دی کہ پارلیمنٹ میں حکومت نے اس فنڈ کو چلانے والوں کے جو نام دیئے، ان کے پتے اسے نہیں مل سکے۔ یہ نام تھے: مارکس بیٹ ڈینجیل، اینا لوجیا وان سینجر برگر اور ایلیسٹر گگین بوشی ایون اور یونکا ایون گوگین بوشی وغیرہ۔ اس کا موازنہ ذرا حکومت کے سیاسی مخالفین اور اس سے عدم اتفاق رکھنے والوں پر ہو رہی کارروائی سے کر کے دیکھیے جن کے معاملے میں چھاپے، اکاؤنٹ فریز کرنا اور یہاں تک کہ گرفتاریاں تک شامل ہیں۔

اسی طرح کارپوریٹ گورننس کے معاملے میں بھی ہنڈن برگ کی رپورٹ میں کچھ سنگین باتیں سامنے رکھی گئی ہیں۔ مثلاً اڈانی انٹرپرائزیز ایک لسٹیڈ کمپنی ہے اور حال ہی میں اس نے بازار سے پھر 20000 کروڑ جٹانے کے لیے ایف پی او پیش کیا ہے۔ اس کمپنی کا ایک خود مختار آڈیٹر ہے جس کا نام ہے شاہ دھندھاریا، جس کے چار شراکت دار یعنی پارٹنر ہیں۔ لیکن اس آڈٹ کمپنی میں صرف 11 ملازمین ہیں۔ ہنڈن برگ کا کہنا ہے کہ یہی فرم اڈانی ٹوٹل گیس کا بھی آڈٹ کرتی ہے۔


ایک اور بات جاننے والی ہے، وہ یہ کہ اس قسم کے الزام دوسری مشہور نیوز ایجنسیاں بھی لگاتی رہی ہیں لیکن حکومت کے کان پر اس سے بھی جوں نہیں رینگی۔ فنانشیل ٹائمز نے نومبر 2020 میں ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا ’مودیز راکفیلر- گوتم اڈانی اور ہندوستان میں اقتدار کا سنٹرلائزیشن‘۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’اڈانی گروپ کو ایئرپورٹ مینجمنٹ کے سیکٹر میں کوئی تجربہ نہیں تھا، پھر بھی 2018 میں جن 6 ایئرپورٹس کی نجکاری کی گئی، وہ سبھی اڈانی گروپ کو دینے کے لیے اصول بدلے گئے۔ اس کے بعد دیکھتے دیکھتے اڈانی ملک کے سب سے بڑے پرائیویٹ ایئرپورٹ آپریٹر بن گئے۔ اسی طرح وہ ملک کے سب سے بڑے پورٹ (بندرگاہ) آپریٹر اور تاپ بجلی کوئلہ پروڈیوسر بھی بن گئے۔ اس کے علاوہ اڈانی گروپ کی حصہ داری بجلی ٹرانسمیشن، گیس ڈسٹریبیوشن بازار میں بھی بڑھتی جا رہی ہے۔‘

اڈانی گروپ کی کمپنیوں پر لگے الزامات پر اس گروپ کی کمپنیوں کے شیئرس میں گراوٹ کے بعد بھی اب تک حکومت بالکل خاموش ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شیئرس کی قیمتیں مستحکم ہونے کا انتظار کر رہی ہو تاکہ اس موضوع پر شروع ہوئی بحث ماند پڑ جائے۔ اگر اس بارے میں کچھ بھی سامنے نہیں آتا ہے تو بھی ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ قبل میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔ لیکن اس بار حالات الگ ہیں کیونکہ جس بڑے پیمانے پر لوگوں میں اڈانی گروپ کو لے کر گھبراہٹ پیدا ہوئی ہے، اور اس میں کافی اہم اداروں کی ساکھ بھی داؤ پر ہے۔


لیکن ہنڈن برگ رپورٹ میں حکومت، اس کے معاشی منصوبوں، خصوصاً اڈانی جیسے گروپوں پر مرکوز معاشی پالیسیوں، کرونی کیپٹلزم اور قانون کی حکمرانی کو لے کر کچھ اہم سوال اٹھائے گئے ہیں۔ اور ان سب کا کوئی جواب ابھی تک نہیں ہے۔ اور یہ سارے سوال اتنی جلد ختم بھی نہیں ہونے والے ہیں۔

انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) اور مرکزی جانچ بیورو (سی بی آئی) کا بھی ایک ایسے گھوٹالے کو لے کر ابھی تک کچھ اتا پتہ نہیں ہے جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ جبکہ ان ایجنسیوں کو اپوزیشن پارٹیوں، سول سوسائٹی اور عام لوگوں کے خلاف تو معمولی بات پر بھی تیزی کے ساتھ پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔


رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد اڈانی گروپ نے اشارے دیئے ہیں کہ وہ ہنڈن برگ پر مقدمہ کرے گا، جس کے جواب میں ہنڈن برگ نے بھی کہا ہے کہ مقدمہ امریکہ میں کرنا جہاں وہ کمپنی سے اس سے متعلق دستاویز پیش کرنے کی گزارش کرے گی۔ امید کریں کہ یہ مقدمہ درج ہوگا اور کافی کچھ واضح ہوگا۔

(مضمون نگار آکار پٹیل مشہور و معروف رائٹر اور ایمنسٹی انڈیا کے سربراہ ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔