اب تو کئی کئی جوشی مٹھ... (ترلوچن بھٹ کا مضمون)
تنبیہوں پر کسی نے توجہ نہیں دی، لوگوں کا جوشی مٹھ میں بسنے کا سلسلہ تو جاری رہا ہی، فوج نے بھی یہاں کافی تعمیرات کیے، جوشی مٹھ اور آس پاس کے علاقوں میں کئی واٹر پاور پروجیکٹ بھی بنائے گئے۔
جوشی مٹھ سے لوگوں کو ہٹا دینا چاہیے، انھیں معاوضہ دے کر ان کی باز آبادکاری ہونی چاہیے، نیا جوشی مٹھ بنا دینا چاہیے، جوشی مٹھ آنے والے سیاحوں اور گاڑیوں کی تعداد محدود کر دینی چاہیے... لوگ اسی قسم کی ترکیبوں کا مشورہ دے رہے ہیں۔ پھولوں کی وادی، بدری ناتھ-ہیم کنڈ اور اسکینگ ریسورٹ اولی کا داخلی دروازہ کہے جانے والے جوشی مٹھ میں رہنے والے لوگ فکر مند اور خوف زدہ ہیں۔ لیکن بیشتر لوگوں کے لیے اس جگہ کو بالکل چھوڑ دینا متبادل ہے ہی نہیں، کیونکہ ان کی روزی روٹی کا دار و مدار یہاں آنے والے سیاحوں پر ہی منحصر ہے۔
یہاں کے لوگ اس بات سے بالکل مطمئن ہیں کہ این ٹی پی سی کی تپووَن-وشنوگاڈ پروجیکٹ کی وجہ سے ان کا یہ حال ہوا ہے۔ جوشی مٹھ میں ایسے پوسٹر خوب لگے ہوئے ہیں جن میں لکھا ہے ’این ٹی پی سی، واپس جاؤ‘۔ لوگ غصے میں کہتے بھی ہیں کہ ہم کیوں جائیں، این ٹی پی سی کو واپس جانا چاہیے۔ سنھدھار کے کافلہوم اسٹے کے شیورام سنگھ پہلے زندہ دل شخص کے طور پر ملتے تھے۔ اس بار مایوس اور اندر ہی اندر پریشان لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’زندگی بھر کی محنت ختم ہو گئی۔‘‘ وہ کئی بار پوچھ چکے ہیں ’’کیا بچ جائے گا جوشی مٹھ؟‘‘
ایسے میں بھی اتراکھنڈ کی پشکر سنگھ دھامی حکومت کا رویہ سبھی چیز سے انکار کرنے والا ہی معلوم پڑتا ہے۔ دسمبر میں وہ کہہ رہی تھی 300 میٹر تک نقصان پہنچا ہے، بعد میں کہا 30 فیصد علاقہ متاثر ہوا ہے۔ پھر جنوری میں اسے تقریباً 1000 گھروں کو غیر محفوظ بتایا۔ ان سب کے بعد جنوری کے آخر میں کہا کہ جوشی مٹھ اور آس پاس تحریک کر رہے لوگ دراصل ماؤوادی اور چین حامی ہیں۔ ہر ’غیر محفوظ‘ گھر کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے معاوضہ دینے کی بات بھی کی گئی لیکن افسران پھر بھی غائب ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ اس شہر یا ہائیوے کو کوئی خاص خطرہ نہیں ہے۔
لیکن ماہر ارضیات ڈاکٹر ایس پی ستی صاف کہتے ہیں کہ اب جوشی مٹھ کو بچانے کی بات کرنا فضول ہے، اب تو جوشی مٹھ والوں کو بچانے کی بات ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر ستی خود مختار ماہر ارضیات کی اس ٹیم میں شامل تھے جس نے کچھ ماہ قبل جوشی مٹھ کے لوگوں کی گزارش پر دھنساؤ کے اسباب کی جانچ کی تھی اور دیگر باتوں کے علاوہ اس دھنساؤ کے لیے این ٹی پی سی کی تپووَن-وشنوگاڈ پروجیکٹ کی ٹنل کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جوشی مٹھ پرانے لینڈ سلائڈنگ کے ملبے پر بسا ہوا ہے اور اس کی زمین کھوکھلی ہے۔ انھوں نے اتراکھنڈ میں کئی دوسرے حصوں... گوپیشور، پوڑی، سری نگر، گپت کاشی، اوکھی مٹھ، دھارچولا، نینی تال، منسیاری سمیت کئی مقامات کے نام لیے جہاں مستقبل میں اس طرح سے دھنساؤ کا مسئلہ پیدا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ نگر قصبے ہیں جہاں ڈرینیج کا کوئی انتظام نہیں ہے اور قدرتی ڈرینیج سسٹم کی ہم نے شہرکاری کے چکر میں گلا گھونٹ دیا ہے۔
مارواڑی میں رِسنے والے پانی کے بہاؤ کا تجزیہ کرتے ہوئے میں وشنوپریاگ میں الکنندا پل کے پاس تک گیا۔ وہاں چائے کے ایک کھومچے میں پنوار جی ملے۔ وہ چائیں گاؤں کے ہیں۔ یہ گاؤں جوشی مٹھ کے ٹھیک سامنے الکنندا کے دوسری طرف ہے جو کئی سال پہلے جوشی مٹھ جیسی آفت کا شکار ہو چکا ہے۔ اس گاؤں کی زمین کے اندر جے پی پاور ونچر کمپنی کے وشنوگاڈ پروجیکٹ کا پاور ہاؤس اور دیگر تعمیرات ہیں۔ گاؤں کے پیچھے کی پہاڑی سے اس پروجیکٹ کی ٹنل ہے۔ پہلے اس گاؤں کی پہچان جوشی مٹھ علاقہ میں دودھ اور پھل پیدا کرنے والے گاؤں کے شکل میں تھی، لیکن اس پروجیکٹ کے سبب تقریباً 22 سال پہلے ٹھیک ویسے ہی دھنس گیا تھا جیسے آج جوشی مٹھ دھنس رہا ہے۔ میں نے معاوضے کے بارے میں پوچھا تو اپنے کھومچے پر لگی ٹن کی چادریں دکھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’ایسی – چادریں ملی تھیں معاوضے کے نام پر۔‘‘
چائیں گاؤں آج بھی دھنس رہا ہے۔ پنوار کہتے ہیں کہ 65-60 کنبوں کے گاؤں میں صرف 18 کنبوں کو مارواڑی میں گھر بنانے کے لیے زمین ملی تھی۔ انھوں نے گھر بنائے، لیکن کھیتی باڑی کے لیے گاؤں ہی آتے ہیں۔ اب تو مارواڑی بھی غیر محفوظ ہے۔ جوشی مٹھ دھنسے گا تو نیچے مارواڑی میں ہی آئے گا۔ وہ کہتے ہیں ’’اس وقت پروجیکٹ کی ٹنل سے نکلنے والے بارود والے ملبے سے پہلے ان کے مویشی مرے، پھر پیڑ پودے تباہ ہو گئے۔ اب کھیتی کچھ نہیں ہوتی۔ گاؤں کے لوگ بھی انہی غیر محفوظ گھروں میں ہیں۔‘‘
جوشی مٹھ کے سب سے زیادہ متاثر علاقوں میں منوہر باغ نام کی آباد بستی شامل ہے۔ اولی والی روڈ سے نیچے اترتے ہی پہلا گھر سورج کپروان کا ہے۔ ان کے گھر سے لے کر کھیتوں سے ہوتی ہوئی دور تک چوڑی دراڑ نظر آ رہی ہے۔ گھر کے بڑے حصے میں شگاف پڑ گیا ہے۔ کھیتوں میں دراڑ تین فٹ تک چوڑی ہے۔ گھر سے کچھ ہی دوری پر اولی روپوے کا پہلا ٹاور ہے۔ ٹاور کے ٹھیک نیچے بھی دراڑ ہے۔ ٹاور بھی ٹیڑھا ہو گیا ہے۔ سورج بتاتے ہیں کہ ٹرالی مینجمنٹ بند کر دیا گیا ہے۔ ٹرالی ٹاور کے کچھ میٹر نیچے ایک گھر میں پوری طرح شگاف پڑ گیا ہے۔ کمروں کا فرش کئی ٹکڑوں میں ٹوٹا ہوا ہے۔ فرش کہیں اوپر اٹھ گیا ہے اور کہیں نیچے دھنس گیا ہے۔ سبھی کمروں کا سامان نکال کر ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔
چندر بلبھ پانڈے اور ان کے بھائی تقریباً بدحواس ہیں۔ باہر نوکری کر رہے اپنے دونوں بیٹوں کو بلا لیا ہے۔ گھر میں ایک بھی ایسا کمرہ نہیں جس میں وہ رہ سکیں۔ رہنے لائق کوئی جگہ بھی اب تک انتظامیہ نے نہیں دی ہے۔ چندر بلبھ پانڈے بتاتے ہیں، ان کا گاؤں جوشی مٹھ سے کچھ دور پاتال گنگا سے لگتا گنائیں گاؤں ہے۔ گنائیں گاؤں میں دو طرف سے شگاف پڑ رہا ہے اور کئی سالوں سے غیر محفوظ گاؤں قرار دیا جا چکا ہے۔ گاؤں کے لوگ بازآبادکاری کا انتظار کرتے رہے لیکن کچھ نہیں ہوا۔ اپنی حفاظت خود کرنے کے لیے بیشتر کنبے جوشی مٹھ یا دیگر مقامات پر منتقل ہو گئے۔ چندر بلبھ پانڈے آگے کہتے ہیں کہ محفوظ رہنے کے لیے یہاں آئے تھے، لیکن یہاں بھی وہی حالت ہو گئی۔ پاس بیٹھی چندر بلبھ پانڈے کی بھابھی لگاتار آنسو بہا رہی ہیں۔
جوشی مٹھ آ کر رینی کی طرف نہ جانا ادھورا سا لگتا ہے۔ دھولی اور رشی گنگا کے سنگم والی جگہ سے کچھ دوری پر قدرت کے تحفظ کے لیے وقف ہماری نظریاتی ماں گورا دیوی کا گاؤں۔ تقریباً 50 سال پہلے انھوں نے ہی چپکو آندولن کی قیادت کی تھی۔ فروری اور پھر جون 2021 کی آفت کے بعد پوری طرح سے غیر محفوظ ہو چکے رینی گاؤں کو اس کے تقریباً 5 کلومیٹر اوپر بھوشیہ بدری کے راستے میں پڑنے والے سبھائیں گاؤں میں بسانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
جوشی مٹھ سے آگے بڑھ کر تپووَن پہنچے تو تھپلیال جی کے ڈھابے پر دال بھات کھانے کے دوران پتہ چلا کہ تقریباً 10 کلومیٹر دور سبھائیں گاؤں میں بھی کئی گھروں پر شگاف پڑ گئے ہیں۔ سڑک کے ٹھیک اوپر رینی کی طرف بڑھنے پر سفید رنگ کا ایک دروازہ ہے۔ یہاں گورا دیوی اور ان کے ساتھ رہنے والی ان خواتین کے نام لکھے گئے ہیں جنھوں نے 26 مارچ 1974 کو پیڑوں سے چپک کر جنگلوں کو کٹنے سے بچایا تھا۔ کچھ میٹر دور ہی گورا دیوی کا مجسمہ لگا تھا جو کہ جون 2021 میں سڑک ٹوٹ جانے کے بعد ہٹا دیا گیا۔ گاؤں سنسان ہے۔ کئی بار آواز لگانے پر باغیچے میں کام کر رہی بزرگ خاتون سونی دیوی نے بتایا کہ بیشتر لوگ کہیں پوجا میں گئے ہیں۔ گرام پردھان بھوان سنگھ کی بیوی کرشمہ نے بات چیت میں بتایا کہ باز آبادکاری کے معاملے میں جو حالت جون 2021 میں تھی، وہی آج بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’سبھائیں میں بسانے کی بات سن رہے تھے، لیکن اب تو سبھائیں میں بھی شگاف پڑ رہے ہیں۔‘‘
ہم واپس تپووَن لوٹ کر نئی بنی کچی سڑک پر تقریباً 10 کلومیٹر چڑھتے ہوئے تیزی سے سبھائیں پہنچے۔ یہ گاؤں تقریباً 3200 میٹر کی اونچائی پر بسا ہے۔ اونچائی والے دیگر بھوٹیا قبائلی اکثریت والے گاؤں کی طرح سبھائیں کے لوگ سردیوں میں نشیبی علاقوں میں واقع گاؤں میں نہیں اترتے۔ یہاں کے لوگوں کا نشیبی علاقوں میں کوئی گاؤں نہیں ہے۔ ہم نے جیسے ہی شگاف کے بارے میں بات کی، سریندر سنگھ راوت، پریم سنگھ راوت، روپ سنگھ فرسوان، گریش سنگھ رانا کے درمیان بھنگولی دیوی وغیرہ میں اپنا اپنا گھر دکھانے کی ہوڑ مچ گئی۔ پہلے انھیں لگا کہ ہم کسی سرکاری محکمے سے ہیں۔ جب ہم نے بتایا کہ ہم میڈیا سے ہیں، تب بھی اپنے گھروں کے شگاف دکھانے کے لیے یہ لوگ ہمیں اپنے اپنے گھر لے جاتے رہے۔ یہاں کچھ گھر تو تقریباً منہدم ہونے کی حالت میں ہیں۔ ان میں کچھ پرانے گھر ہیں، تو کچھ ایک دو سال پہلے بنے ہوئے۔ سبھائیں کے نیچے تو کوئی ٹنل بھی نہیں ہے، پھر یہاں شگاف کیوں پڑ رہے ہیں؟ پریم سنگھ راوت بتاتے ہیں کہ فروری 2021 کی آفت کے بعد سے ہی گاؤں میں اس طرح کے شگاف دیکھنے کو مل رہے تھے جو حال کے دنوں میں کچھ زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ کچھ لوگ گاؤں کے ٹھیک نیچے سے گزر رہے جوشی مٹھ-ملاری روڈ کے چوڑاکاری کو بھی اس کی وجہ مان رہے ہیں۔
جوشی مٹھ سے لوٹتے ہوئے ہم سیلنگ گاؤں بھی گئے۔ یہ گاؤں این ٹی پی سی کی تپووَن-وشنوگاڈ واٹر پاور پروجیکٹ سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ گاؤں کے نیرج سنگھ بشٹ، بھوانی دیوی، لکشمی دیوی اور کچھ دیگر لوگ بتاتے ہیں کہ تپووَن-وشنوگاڈ پروجیکٹ کی تقریباً سبھی تعمیرات گاؤں کے نیچے ہیں۔ گاؤں کی زمین پر صرف ایک تعمیر ہے جسے سرج شافٹ کہا جاتا ہے۔ تپووَن میں بن رہے ڈیم سے پانی جوشی مٹھ کے نیچے سے گزر رہی ٹنل کے ذریعہ اس سرج شافٹ تک پہنچے گا اور یہاں سے فورس کے ساتھ زمین کے نیچے بنے پاور ہاؤس کی 130-130 میگاواٹ کی چار ٹربائن تک بھیجا جائے گا۔ زمین کے نیچے سندوق باندھ، ڈی سلنٹنگ چیمبر، ہیڈریس ٹنل، ٹالرنس ٹنل سمیت درجنوں تعمیرات ہیں۔
بھوانی دیوی بتاتی ہیں کہ 2018 میں کچھ گاؤں کی زمین ایکوائر ہوئی تھی۔ زمین کا مقررہ سے چار گنا زیادہ معاوضہ دے کر گاؤں کی ترقی کی بات کہی گئی۔ کچھ لوگوں نے زمین دینے سے انکار کیا تو جبراً ان کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کیے گئے۔ لیکن کام شروع ہوتے ہی گاؤں کی زمین کے نیچے دھماکے ہونے لگے اور گھر ہلنے لگے۔ معاوضے میں ملی رقم سے گاؤں والوں نے جو نئے نئے مکان بنائے تھے، ان میں بھی شگاف پڑنے لگی۔ گاؤں میں روایتی پانی کے ذرائع خشک ہونے لگے۔ لیکن اب ہمیں کوئی نہیں پوچھتا۔
سماجی کارکن اتل ستی کی باتوں کی گہرائی یہاں سمجھ میں آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو جسم کے کئی حصے زخمی ہوتے ہیں لیکن موت اکثر سر میں لگی چوٹ سے ہوتی ہے۔ وہ تپووَن-وشنوگاڈ پروجیکٹ کی ٹنل کو جوشی مٹھ کو اس حالت میں پہنچانے والی ہیڈ انجری بتاتے ہیں۔
ویسے بھی جوشی مٹھ اچانک غیر محفوظ نہیں ہوا ہے۔ جوشی مٹھ اور سیلنگ جیسے گاؤں کو اس حالت میں پہنچانے کی اہم وجہ تنبیہوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ اس خطہ ارض کو لے کر پہلی تنبیہ تو آج سے 135 سال پہلے ہی آ چکی تھی۔ 1886 میں جب ایڈون ایٹکنسن نے ’دی ہمالین گزیٹیر‘ میں اشارہ دیا تھا کہ جوشی مٹھ لینڈ سلائڈنگ کے ملبہ پر بسا ہوا ہے۔ دوسری تنبیہ 1976 میں آئی جب اس وقت گڑھوال کمشنر ستیش چندر مشرا کی قیادت میں بنائی گئی 22 رکنی کمیٹی کی رپورٹ میں بھی یہ بات صاف طو رپر کہی گئی کہ جوشی مٹھ پرانے لینڈ سلائڈنگ کے ملبہ پر ہے۔ اس کی وزن برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہے۔ مشرا کمیٹی کی رپورٹ میں جوشی مٹھ میں بڑی تعمیرات نہ کرنے، یہاں تک کہ یہاں کے ڈھالوں پر زراعت نہ کرنے کی بھی صلاح دی گئی تھی۔ لیکن ان تنبیہوں پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ آس پاس کے گاؤں کے لوگوں کا جوشی مٹھ میں آ کر بسنے کا سلسلہ تو جاری رہا ہی، فوج نے یہاں ایک بڑے خطہ ارض پر بھاری بھرکم تعمیری عمل انجام دیئے، جوشی مٹھ اور آس پاس کے علاقوں میں کئی بڑی بڑی واٹر پاور پروجیکٹس بھی بنائی گئیں۔ اس لیے یہ سب غیر فطری نہیں ہے۔
(مضمون نگار ترلوچن بھٹ کا یہ مضمون ہندی ہفتہ وار ’سنڈے نوجیون‘ سے لیا گیا ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔