پاکستان میں بھی سڑکوں پر اترے ڈاکٹرس، پانچ سالہ بچی سے اسپتال میں عصمت دری کے بعد ہنگامہ برپا

’یَنگ ڈاکٹرس ایسو سی ایشن‘ کے اسٹاف کا الزام ہے کہ اسپتال کے اندر پانچ سالہ بچی سے عصمت دری کی گئی، مظاہرین ڈاکٹرس نے اسپتال انتظامیہ پر بھی کئی سوال اٹھائے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

ہندوستان میں کولکاتا عصمت دری و قتل واقعہ کے بعد پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی نظارہ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بڑی تعداد میں ڈاکٹرس سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں اور عصمت دری کے ایک معاملے پر زوردار مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں عصمت دری کسی خاتون ڈاکٹر یا نرس کی نہیں ہوئی ہے، بلکہ معاملہ پانچ سالہ بچی کے ساتھ اسپتال میں عصمت دری کا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ اسپتال میں ایک بچی کے ساتھ عصمت دری ہوئی ہے، پنجاب (پاکستان) میں زوردار احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ منگل کے روز پنجاب کے ’سر گنگا رام اسپتال‘ اور ’یَنگ ڈاکٹرس ایسو سی ایشن‘ (وائی ڈی اے) کے اسٹاف کی شکایت کے بعد لاہور پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی ہے۔


اسپتال اور وائی ڈی اے کے اسٹاف کا الزام ہے کہ اسپتال کے اندر پانچ سالہ بچی سے عصمت دری کی گئی ہے اور متاثرہ کو انصاف ملنا چاہیے۔ مظاہرہ کر رہے ڈاکٹرس نے اسپتال انتظامیہ پر بھی کئی سوال اٹھائے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اسپتال میں ہوئی اس عصمت دری کو اسپتال انتظامیہ دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس مظاہرہ میں اسپتال اسٹاف کے ساتھ یونیورسٹی اور کالج کے طلبا بھی شامل ہوئے ہیں۔

عصمت دری کے خلاف ہو رہے مظاہرہ کی قیادت وائی ڈی اے چیف ڈاکٹر شعیب نیازی اور اسپتال کے وائی ڈی اے چیپٹر کے سربراہ ڈاکٹر ضم سعید نے کیا۔ مظاہرین میں پاستال کے اسٹاف کے ساتھ ساتھ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی (ایف جے ایم یو) کے طلبا بھی شامل ہوئے۔ جب یہ مظاہرہ شروع ہوا تو کئی عام لوگوں نے بھی اس میں شرکت کی اور عصمت دری کی شکار بچی کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ پورے معاملے کی جانچ کی جائے اور اسپتال انتظامیہ بھی اس معاملے میں اپنی خاموشی توڑے۔ اگر ایسے واقعات کو چھپایا جائے گا اور بولنے والوں کو خاموش کرا دیا جائے گا تو یہ اسپتال انتظامیہ کے لیے ایک سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔


انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ میں اس تعلق سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس خبر کے مطابق سر گنگا رام اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر حفیظ نے کہا کہ ’’لڑکی اپنی ماں کے ساتھ سو رہی تھی۔ رات تقریباً دو بجے صفائی ملازم نے اسے چھو دیا۔ بچی ڈر گئی اور چیخنے لگی، جس کے بعد اس کی ماں کی آنکھ کھل گئی۔ ماں نے بھی شور مچا کر آس پاس کے لوگوں کو اکٹھا کر لیا۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ سینیٹری ورکر اسپتال کا ملازم نہیں، صفائی کا کام اسپتال آؤٹ سورس کرتا ہے۔ جس کمپنی کو صفائی کا ٹھیکہ دیا گیا تھا، اس کا ٹھیکا رد کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملازم کو واقعہ کے بعد پکڑ لیا گیا تھا اور پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

دوسری طرف مظاہرین کا کہنا ہے کہ اسپتال اس معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مظاہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ شروع میں جو ایف آئی آر درج ہوئی اس میں استحصال کی دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا تھا۔ جب احتجاجی مظاہرہ شروع ہوا تب عصمت دری کی دفعات کو جوڑا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔