منکی پاکس کا نام بدلنے پر غور کر رہا ڈبلیو ایچ او، لیکن کیوں؟
عالمی ادارۂ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او نسل پرستی سے نمٹنے کے لیے ’منکی پاکس‘ وائرس کا نام بدلنے پر غور و خوض کر رہا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او نسل پرستی سے نمٹنے کے لیے ’منکی پاکس‘ وائرس کا نام بدلنے پر غور و خوض کر رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریوسس نے منگل کے روز کہا کہ ادارہ ’منکی پاکس‘ وائرس کا نام بدلنے پر دنیا بھر کے شراکت داروں اور ماہرین کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ڈبلیو ایچ او جلد سے جلد نئے ناموں کے بارے میں اعلان کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں : کناڈا کے صوبے کیوبک میں منکی پوکس کے معاملے بڑھ کر 132 ہوئے
منکی پاکس وائرس پوکس ویریڈے فیملی میں آرتھوپاکس وائرس جینس سے متعلق ہے۔ آرتھوپاکس وائرس جینس میں ویریولا وائرس (جو چیچک کی وجہ بنتا ہے)، ویکسینیا وائرس (چیچک کے ٹیکے میں استعمال) اور کاؤ پاکس وائرس بھی شامل ہے۔ حالانکہ منکی پاکس وائرس کا حقیقی مویشی ذریعہ، جو مختلف طرح کے میمل میں پایا گیا ہے، آج تک نامعلوم ہے۔ ڈبلیو ایچ کا ہدف زیادہ مناسب ناموں پر آرتھوپاکس وائرس کے ماہرین سے مشورہ کرنا ہے۔
یہ قدم 11 ممالک کے تقریباً 30 سائنسدانوں کے ذریعہ گزشتہ ہفتے ویرولوجیکل ڈاٹ او آر جی پر پوسٹ کیے گئے ایک پری پرنٹ میں آنے کے بعد آیا ہے، جس میں تفریق آمیز زبان میں کٹوتی کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، جس کا استعمال مغربی افریقہ اور کانگو بیسن میں بندروں کے وائرس کے گروپوں کو الگ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور تعداد کے ساتھ وائرس کا نام بدلنے کی بھی وکالت کی جاتی ہے۔ پیپر میں سائنسدانوں نے وائرس کو وسیع طور سے ’ایچ ایم پی ایکس وی‘ کی شکل میں درجہ بندی کرنے کا مشورہ دیا، اس کے تنوع کا نیوٹرل لائن ایجس جیسے اے، اے1، اے1.1، بی1 کے ذریعہ ظاہر کیا گیا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ وائرس اور بیماریوں کے جغرافیائی نام والے وائرس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کورونا وائرس وبا کے دوران دنیا بھر کے لوگوں نے کووڈ وائرس کو چین یا وُہان وائرس کی شکل میں پیش کیا تھا اور پھر جنوبی افریقہ میں ایک کووڈ اسٹرین کے پتہ چلنے کے بعد سفری پابندی لگ گئی، جس سے ڈبلیو ایچ او کو جلد ہی اسے سارس-کوو-2 کا نام بدلنا پڑا۔ عالمی ہیلتھ باڈی کے مطابق منکی پاکس نے اب تک مقامی اور غیر مقامی دونوں ممالک میں 2821 لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔