جرمنی میں ’می ٹو‘ تحریک سے ہنگامہ، جرمن حکومت نے دی فلم انڈسٹری کی سبسیڈی روکنے کی تنبیہ

جرمنی کی وزیر ثقافت نے کہا کہ ’’ کلچرل انڈسٹری میں طاقت کے غلط استعمال، جنسی استحصال اور لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کی گنجائش رہتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ فلمسازی سے جڑے لوگ ایک ضابطہ اخلاق بنائیں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>می ٹو تحریک، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

می ٹو تحریک، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

جرمنی میں فلم انڈسٹری کے اندر ’می ٹو‘ تحریک نے ان دنوں ایک ہنگامی حالت پیدا کر دی ہے۔ اس تحریک نے کچھ اس قدر تنازعہ پیدا کر دیا ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کرنی پڑی ہے۔ الزام عائد کیے جا رہے ہیں کہ خاتون اداکاروں سے غلط سلوک کے سبب وہاں کی فلم انڈسٹری میں ’خوف کا ماحول‘ بنا ہوا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے فلم اسٹارس پر ساتھ کام کرنے والی خواتین کو ڈرانے دھمکانے اور ان سے بدسلوکی کرنے کے بھی الزامات لگے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی ایوارڈس اپنے نام کر چکے اداکار اور ہدایت کار ٹل شویگر پر الزام لگا ہے کہ انھوں نے حال میں ایک فلم بنانے کے دوران ساتھی اداکاروں کو دھمکایا اور ان سے بدزبانی کی۔ اس فلم کی ہدایت کاری بھی شویگر نے کی ہے۔ مارچ میں ریلیز ہوئی یہ فلم باکس آفس پر کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 50 لوگوں نے ان کے غلط سلوک کے بارے میں تفصیلات پیش کی ہیں۔ ان تفصیلات کو مشہور رسالہ ’ڈیر اسپیگیل‘ نے شائع کیا ہے۔ اس میں کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ شویگر ایک دہائی سے ایسا ہی سلوک کر رہے ہیں۔


جرمنی کی وزیر ثقافت کلاؤڈیا روتھ نے اس سلسلے میں وسیع جانے کرانے کی بات کہی ہے۔ انھوں نے تنبیہ کی ہے کہ اگر فلمسازی کے دوران فلم کاروں نے لیبر سیکورٹی لاء کی خلاف ورزی جاری رکھی تو حکومت فلم صنعت کو ملنے والی سبسیڈی پر روک لگا دے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’’دنیا میں می ٹو تحریک شروع ہونے کے پانچ سال بعد اب جرمنی کو بھی اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے کریٹیو اینڈ کلچرل انڈسٹری سے جڑی صنعتوں میں ایسے الزامات پر پورا دھیان دینا ہوگا۔‘‘ کلاؤڈیا روتھ نے کہا کہ ’’کریٹیو اینڈ کلچرل انڈسٹری میں طاقت کے غلط استعمال، جنسی استحصال اور لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کی گنجائش رہتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فلمسازی سے جڑے لوگ ایک ضابطہ اخلاق بنائیں، ورنہ انھیں سرکاری سبسیڈی سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔‘‘

’ڈیر اسپیگیل‘ میں رپورٹ شائع ہونے کے بعد سے جرمن فلم انڈسٹری میں کام کرنے والے مزید کئی لوگ بھی سامنے آئے ہیں اور الزام عائد کیا ہے کہ اس انڈسٹری میں ’زہریلا‘ ماحول ہے اور یہ بات صرف شویگر تک محدود نہیں ہے۔ فلم اور تھیٹر کی مشہور اداکارہ کیرولائن پیٹرس نے برٹش اخبار ’دی گارجین‘ سے کہا کہ ’’مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اب اس ایشو پر عوامی طور پر بحث ہو رہی ہے۔ اب لوگوں کو ایسا سلوک برداشت کرتے ہوئے تنہا ہونے کا احساس نہیں ہوگا۔‘‘ اداکارہ نورا ٹشرنر نے اس تعلق سے کہا کہ ’’ایسا سلوک سالوں سے ہوتے رہے ہیں اور سب کو معلوم بھی رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ جو لوگ اونچے عہدوں پر بیٹھے ہیں، انھیں اب ضروری کارروائی کرنی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔