بی جے پی کو حلف برداری کی تقریب میں شاہ رخ تو چاہئے لیکن مسلم وزیر نہیں!

ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت نے فرقہ پرستی کے خلاف ہی ووٹ دیا ہے۔ بی جے پی کو حکومت سازی کے وقت اصلاحی عمل کرنے کا موقع ملا تھا لیکن اس نے مسلمانوں کو نظرانداز کر کے اپنے روایتی موقف پر عمل کیا

<div class="paragraphs"><p>مودی کی حلف برداری تقریب میں شاہ رخ خان / Getty Images</p></div>

مودی کی حلف برداری تقریب میں شاہ رخ خان / Getty Images

user

قومی آواز تجزیہ

بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت مرکز میں قائم ہو چکی ہے۔ حلف برداری سے لے کر قلمدانوں کی تقسیم تک مکمل ہو چکی ہے۔ ان انتخابات میں دو باتیں جن کا ذکر سب ہی کر رہے ہیں وہ واضح نظر آ رہی ہیں۔ ایک یہ کہ بی جے پی ان انتخابات میں اکثریت سے محروم رہی اور دوسری یہ کہ حزب اختلاف بہت مضبوط ہو کر سامنے آیا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے لئے حزب اختلاف کے رہنما، اتحاد، امیدوار کا انتخاب، انتخابی مسائل کی تشہیر اور مسلمانوں کے بی جے پی مخالف ہونے کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت سازی کے عمل میں بی جے پی یا اس کے اتحادیوں نے انتخابی نتائج کی روشنی میں کورس کریکشن یعنی کوئی اصلاحی عمل کرنے کی سمت قدم نہیں اٹھایا۔

حکومت، وزراء یا وزیر اعظم کسی خاص طبقہ کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ ملک کے ہر طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن جس طرح ہندوستانی مسلمانوں کو حکومت سازی کے عمل میں نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ وزیر اعظم کے اس بیان کے خلاف لگتا ہے جس میں وہ ’سب کے وکاس ‘ کی بات کرتے ہیں۔ وزراء کی حلف برداری کی تقریب میں مسلمانوں کو نظر انداز کرنا اور مختار عباس نقوی کے بعد کسی مسلمان کا وزیر نہ ہونا اس سمت اشارہ کرتا ہے کہ بی جے پی کی سیاست کے لئے مسلمان کتنے ضروری ہیں کیونکہ اگر یہ مسلمان نہ ہوں تو وہ کس کے خلاف اپنا زہر اگلے گی اور کس طرح غیر مسلموں کو خوف کے نام پر اپنے پیچھے کھڑا رکھے گی۔


ملک کے وزیر اعظم کا ایک خاص طبقہ کو ان کے کپڑوں سے پہچاننے کی بات کرنا، انتخابی تشہیر کے دوران اس طبقہ کو درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے لوگوں میں شمار کرنا یہ سب نئی باتیں نہیں ہیں اور ان کے دم پر وہ اکثریتی طبقہ کے کچھ ووٹ حاصل کر کے اقتدار کی کرسی پر ایک مرتبہ پھر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن کیا اس سب سے ملک کی ترقی ممکن ہے؟ ملک کے ایک بڑے طبقہ جس کی آبادی ملک کی 15 فیصد آبادی سے زیادہ ہے اس کو نظر انداز کر کے یا یوں کہئے کہ اس کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کر کے کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

ہندوستانی مسلمانوں کو کسی وزارت کی ضرورت نہیں لیکن حکومت کے پاس یہ ایک موقع تھا مسلمانوں کا دل جیتنے کا۔ پنجاب میں بی جے پی کو سکھوں نے ووٹ نہیں دیا لیکن حکمراں جماعت نے سکھوں کا دل جیتنے کے لئے کانگریس سے بی جے پی میں آئے اور لوک سبھا انتخابات میں ہارے رونیت سنگھ بٹو کو وزیر بنایا۔ وہیں، کیرالہ میں بی جے پی کی خراب کارکردگی کے باوجود عیسائی طبقہ اور کیرالہ کے عوام کا دل جیتنے کے لئے کیرالہ سے عیسائی طبقہ کے ایک لیڈر کو وزیر بنایا جبکہ وہ پارلیمنٹ کے کسی بھی ہاؤس کا رکن نہیں ہے لیکن 15 فیصد سے زیادہ آبادی والے طبقہ کو کوئی وزارت نہیں دی۔ جبکہ یہ موقع تھا جب وزیر اعظم اپنے نعرے ’سب کا وکاس‘ پر عمل کرتے اور عالمی طور پر یہ پیغام دیتے کہ ہندوستانی حکومت مسلمانوں کی بھی اتنی ہی فکر کرتی ہے جتنی عیسائی، سکھ اور بودھ سماج کی۔ بی جے ی کو شاید ایسا کرنے سے یہ محسوس ہوا کہ اس کا حمایتی اکثریتی طبقہ اس سے ناراض ہو جائے گا۔ بہرحال بی جے پی نے اپنے انتخابی فوائد کو زیادہ ترجیح دی۔


بی جے پی کی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کے اتحادیوں کا عمل سمجھ نہیں آتا۔ جنتا دل یونائیٹڈ کے ایک مسلم ایم ایل سی نے نتیش کے قدم کی حمایت کی لیکن ان کی پارٹی نے کسی مسلم رہنما کو وزیر بنانے کی بات نہیں کی۔ آندھرا پردیش کی نومنتخب ٹی ڈی پی حکومت جو اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کے ریزرویشن اور حجاج کو ایک لاکھ روپے دینے کی بات کرتی ہے، وہ بھی مرکز میں مسلم وزیر کے نام پر خاموش رہتی ہے۔ مسلمانوں کو شاید انہوں ریزرویشن اور چند فوائد تک محدود رکھا ہے ان کی نمائندگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ چندرابابو نائیڈو کے بیٹے کچھ بھی بیان دیں لیکن ہندوستانی مسلمانوں کو فائدہ نہیں بلکہ وہ مقام چاہئے جس سے لگے کہ وہ ہندوستانی حکومت کا حصہ ہیں۔ ان اتحادی پارٹیوں سے بی جے پی بہتر ہے جس کا موقف واضح ہے لیکن یہ اتحادی جماعتیں مسلم رائے دہندگان کو بے وقوف بناتی ہیں۔

ہندوستانی مسلمانوں نے بھی بر سر اقتدار بی جے پی کی طرح ان انتخابات میں اپنا موقف واضح کر دیا ہے اور ان کی اکثریت نے فرقہ پرستی کے خلاف ہی ووٹ دیا ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ بی جے پی کو حکومت سازی کے وقت اصلاحی عمل کرنے کا موقع ملا تھا لیکن اس نے اپنے روایتی موقف پر ہی عمل کیا۔ ہندوستانی مسلمانوں نے جمہوریت کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ اس کو فروغ دیا ہے۔ بی جے پی کو حلف برداری کی تقریب میں شاہ رخ خان جیسے مسلمان تو چاہئیں لیکن مسلم وزیر نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔