’ڈھائی سال تک میرے والد کو تکلیف کیوں دی گئی؟‘ صدیق کپن کی رِہائی کے بعد بیٹے نے کیا اظہارِ شکوہ

صدیق کپن کی بیوی ریحانہ سے جب سوال کیا گیا کہ والد کی رِہائی کے بعد بچوں کو کیسا احساس ہو رہا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے بچے ان کے استقبال کا انتظار کر رہے ہیں، ان کی خوشی چھین لی گئی تھی۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>صدیق کپن، تصویربشکریہ نیشنل ہیرالڈ</p></div>

صدیق کپن، تصویربشکریہ نیشنل ہیرالڈ

user

قومی آواز بیورو

جمعرات کی صبح کیرالہ کے مشہور صحافی صدیق کپن کی جیل سے رِہائی عمل میں آئی۔ اس دن کا انتظار ان کی بیوی ریحانہ اور بچوں مزمل، زیدان و مہہ ناز گزشتہ ڈھائی سالوں سے تھا۔ انتظار کی یہ گھڑی جمعرات کو ختم ہوئی اور سبھی تک صدیق کپن کی جیل سے رِہائی کی خوشخبری پہنچی۔ کپن کی بیوی ریحانہ نے اس موقع پر کہا کہ ’’دونوں معاملوں میں کپن کو ضمانت ملے مہینوں ہو گئے۔ ہائی کورٹ نے یو اے پی اے معاملے میں ضمانت دے دی تھی اور ان کی بے گناہی سامنے آ گئی۔ ڈھائی سال کی مدت کم نہیں ہے۔ ہم نے بہت درد اور تکلیف برداشت کیا۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ دیر سے ہی سہی لیکن انصاف ملا۔ میں اس موقع پر ایک بار پھر دہراتی ہوں کہ کپن ایک میڈیا اہلکار ہیں۔‘‘

صدیق کپن لکھنؤ ضلع جیل سے تقریباً 28 ماہ بعد 2 فروری کی صبح باہر نکلے۔ اس رِہائی پر اظہارِ راحت کرتے ہوئے انھوں نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے کہا کہ ’’میں دہلی جا رہا ہوں۔ مجھے وہاں چھ ہفتے رہنا ہے۔‘‘ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ جیل میں زندگی کیسی گزری، تو کپن نے کہا ’’میں نے بہت جدوجہد کیا۔‘‘ جب کپن جیل سے رِہا ہوئے تو ساتھ میں ان کے وکیل دانش بھی تھے اور انھوں نے بھی ڈھائی سال بعد ان کی رِہائی پر خوشی کا اظہار کیا۔


صدیق کپن کی بیوی ریحانہ اُن کی رِہائی سے بے انتہا خوش دکھائی دیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ والد کی رِہائی کے بعد بچوں کو کیسا احساس ہو رہا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے بچے ان کے استقبال کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کی خوشی چھین لی گئی تھی۔ وہ ہر دن ان کا انتظار کر رہے تھے۔ کیا وہ اپنے والد کو بھول سکتے ہیں؟ وہ فخر سے کہتے ہیں کہ صدیق کپن ایک صحافی اور ان کے والد ہیں۔‘‘

کپن کے بڑے بیٹے 19 سالہ مزمل نے بھی پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے اپنے والد کی رِہائی پر رد عمل ظاہر کیا۔ مزمل نے شکوہ کے انداز میں کہا کہ ’’میرے والد میڈیا اہلکار ہیں۔ ڈھائی سال تک میرے والد کو اتنی تکلیف کیوں برداشت کرنی پڑی؟ ہم ان کی آزادی کا انتظار کرتے رہے۔ اب میں بہت خوش ہوں۔ ان سبھی کا شکریہ جو ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔